Sarhe 5 Mah Ka Hamal Saqit Ho Jaye Tu Usay Kahan Dafnaya Jaye ?

ساڑھے پانچ ماہ کا حمل ساقط ہوجائے تو اسے کہاں دفنایا جائے ؟

مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1249

تاریخ اجراء: 24جمادی الاول1445 ھ/09دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر ساڑھے پانچ ماہ کی بچی مردہ پیدا ہو، تو اس کو کہاں دفنایا جائے گا ؟ نیز کچا بچہ کسے کہتے ہیں کیا ساڑھے پانچ ماہ کی بچی کو کچا بچہ کہیں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حمل ساقط ہوجائے تو بچے کے اعضاء  مکمل بنے ہوں یا  کم بنے ہوں، بہرحال جب وہ مردہ پیدا ہوا، تو اس کے جنازے کی نماز  نہیں مگر پھر بھی اسے ویسے ہی نہلا کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر مسلمانوں کے قبرستان  میں دفن کیا جائے۔

   نیز چھ ماہ سے پہلے گر جانے والا بچہ کچا بچہ کہلاتا ہے۔اس سے متعلق حکم  یہ ہے کہ  اس کا  بھی نام رکھا جائےورنہ وہ اللہ پاک کے یہاں شکایت کرے گا۔

   مسلمان ماں باپ کا کچا بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے اُس کے لیے حدیث پاک میں فرمایاکہ قیامت  کے دن اﷲ پاک سے اپنے ماں باپ کی بخشش کے لیے ایسا جھگڑے گا جیسا قرض خواہ کسی قرض دار سے، یہاں تک کہ فرمایا جائے گا:ایھا السقط المراغم ربہ أدخل أبویک الجنۃ ’’اے کچے بچے! اپنے رب سے جھگڑنے والے! اپنے ماں باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں چلا جا۔‘‘(سنن ابن ماجہ، الحدیث 1608،صفحہ 242، مطبوعہ:ریاض)

   اس حدیث پاک کے الفاظ ’’السقط‘‘ کے تحت مرقاۃالمفاتیح میں  ہے:’’أی: الولد الساقط قبل ستۃ أشھر ‘‘ یعنی ’’السقط‘‘ اس بچے کو کہتے ہیں جو چھ ماہ سے پہلے فوت ہو جائے۔(مرقاۃ المفاتیح،جلد4،صفحہ211،مطبوعہ:کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:”بچہ زندہ پیدا ہوا یا مُردہ اُس کی خلقت تمام ہو یا نا تمام بہرحال اس کا نام رکھا جائے اور قیامت کے دن اُس کا حشر ہوگا۔“(بہار شریعت،جلد1،صفحہ841، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   فتاویٰ رضویہ میں بچوں  کے حقوق بیان  کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’نام رکھے یہاں تک کہ کچے بچے کابھی جو کم دنوں کاگرجائے ورنہ اﷲ عزوجل کے یہاں شاکی ہوگا۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ452، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   بہار شریعت میں ہے:’’مسلمان مرد یا عورت کا بچہ زندہ پیدا ہوا یعنی اکثر حصہ باہر ہونے کے وقت زندہ تھا پھر مر گیا تو اُس کو غسل و کفن دیں گے اور اس کی نماز پڑھیں گے، ورنہ اُسے ويسے ہی نہلا کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیں گے، اُس کے ليے غسل و کفن بطریق مسنون نہیں اور نماز بھی اس کی نہیں پڑھی جائے گی، یہاں تک کہ سر جب باہر ہوا تھا اس وقت چیختا تھا مگراکثر حصہ نکلنے سے پیشتر مر گیا تو نماز نہ پڑھی جائے، اکثر کی مقدار یہ ہے کہ سر کی جانب سے ہو تو سینہ تک اکثر ہے اور پاؤں کی جانب سے ہو تو کمر تک۔‘‘(بہار شریعت،جلد1،صفحہ841، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم