Qabristan Mein Lagi Khushk Ghaas Ko Jalana Kaisa?

قبرستان میں لگی خشک گھاس کو جلانا کیسا ؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin 6188

تاریخ اجراء:13شوال المکرم1440ھ17جون2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ اکثراوقات قبرستان میں گھاس وغیرہ اُگ جاتی ہے،جس کی صفائی کا بعض لوگ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ قبرستان میں آگ لگا دیتے ہیں،تو سوال یہ ہے کہ کیااس طرح قبرستان میں آگ لگانا،جائز ہے؟

سائل:محمد شفیق(راولپنڈی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    قبرستان میں لگی خشک گھاس وغیرہ  کوکاٹنے یااکھیڑنے کی اجازت ہے،لیکن یادرہے!اس گھاس کو صاف کرنےکےلئےقبرستان میں آگ لگاناممنوع ومکروہِ تنزیہی ہے،جبکہ کسی قبرپر آگ نہ لگائی جائےاوراگرقبر کےاوپر لگی خشک گھاس وغیرہ کوآگ جلا کرصاف کیا،تویہ فعل مکروہِ تحریمی،ناجائز و گناہ ہوگاکہ اس میں آگ کی وجہ سے بُری فال اورمیت کو اذیت دینا ہے،لہٰذااگرقبرستان یا قبروں پر گھاس اُگ پڑے،تو  گھاس کاٹنے والی مشین یا اسی طرح کے کسی اور آلے کے ذریعےاُسےکاٹ دیاجائے۔

    علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’یکرہ ایضاقطع النبات الرطب والحشیش من المقبرۃدون الیابس‘‘ترجمہ: قبرستان سےترنباتات اور تر گھاس کاٹنامکروہ ہےاور خشک ہو،توکاٹنا مکروہ نہیں۔                       

(ردالمحتار،ج3،ص184،مطبوعہ پشاور)

    فتاوی فیض الرسول میں ہے:’’قبروں پرلگی ہوئی گھاسوں کو جلاناممنوع ہے لما فیہ من التفاؤل القبیح بالناروایذاءالمیت (کیونکہ اس میں آگ کی وجہ سے بری فال  اور میت کو اذیت دینا ہے)۔‘‘                  

(فتاوی فیض الرسول،ج1،ص466،شبیربرادرز،لاھور)

    صدرالشریعۃمفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’قبرستان میں آگ جلانا بھی مکروہِ تنزیہی ہے،جبکہ قبرپرنہ ہو۔‘‘

(فتاوی امجدیہ،ج1،ص362،مکتبہ رضویہ،کراچی)

    اس کےتحت حاشیے میں شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’اوراگرقبرپرآگ جلائیں،توناجائزوگناہ۔‘‘

(فتاوی امجدیہ،ج1،ص362،مکتبہ رضویہ،کراچی) 

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم