Qabar Par Murde Ke Naam Ki Takhti Lagana ?

قبر پر مردے کے نام کی تختی لگانا

مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2323

تاریخ اجراء: 19جمادی الاول1445 ھ/04دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   قبروں پر جو مردے کے نام کی تختیاں لگاتے ہیں اور اس کانام لکھتے ہیں ،کیا یہ صحیح ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   میت کی پہچان کے لیے قبرپراس  کے نام کی  تختی لگانا  اور اس پر کچھ لکھنا جائز ہے ،اس میں کوئی حرج نہیں ۔یہ عمل اسلاف سے ثابت ہے اورمسلمانوں کااس پرعمل ہے ۔

   در مختار میں ہے” لا بأس بالكتابة إن احتيج إليها حتى لا يذهب الأثر“ترجمہ:قبر پر لکھنے کی حاجت ہو  کہ قبر کے نشانات نہ مٹیں تو قبر پر لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے” فقد وجد الإجماع العملي بها“ترجمہ:قبروں پر لکھنے پر اجماع عملی واقع ہو چکا ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار،ج 2،ص 237،دار الفکر،بیروت)

   المستدرک علی الصحیحین میں ہے” فإن أئمة المسلمين من الشرق إلى الغرب مكتوب على قبورهم، وهو عمل أخذ به الخلف عن السلف“ترجمہ:بیشک شرق سے غرب تک ائمہ مسلمین کی قبروں پر لکھا ہوا ہے اور یہ وہ عمل ہے جسےبعدوالوں نے اسلاف سے لیا ہے۔(المستدرک علی الصحیحین،ج 1،ص 525،دار الكتب العلمية ، بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم