Murde Ko Talqeen Karne Ka Tarika

مردے کوتلقین کرنے کاطریقہ

مجیب: ابوالحسن ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1409

تاریخ اجراء:       26رجب المرجب1444 ھ/18فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   مفتی صاحب کی بارگاہ میں عرض ہے کہ جب مردے کو تلقین کروائی جاتی ہے تو فلاں بن فلاں کی جگہ مردہ اور اس کی ماں کا نام لیا جاتا ہے لیکن اگر تلقین کرنے والا میت کا بیٹا ہو تو وہ اپنی مرحومہ ماں یا باپ کا نام لےگایا کیا کرے گا ،یعنی امی بنت نانی  کہے گا یا نام لےگا؟ جواب عطا فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   میت والد یا والدہ ہو تو ان کوبھی   حدیث پاک میں مذکور طریقے کے مطابق نام لے کرہی تلقین کی جائے، ازخود نئے طریقے ایجاد کرنے سے احتراز کرنا چاہیے ۔

   تلقین کے متعلق صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :دفن کے بعد مردہ کو تلقین کرنا، اہل سنت  کے نزدیک مشروع ہے۔۔۔۔ حدیث میں ہے: حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں : جب  تمہارا کوئی مسلمان بھائی  مرے اور اس کی  مٹی دے چکو تو تم میں  ایک شخص قبر کے سرہانے کھڑا  ہو کر کہے: یا فلاں بن فلانہ (یعنی اس کا اور اس کی والدہ کا نام لے)وہ سنے گا اور جواب نہ دے گا پھر کہے :یا فلاں بن فلانہ! وہ سیدھا  ہو کر بیٹھ جائے گا پھر کہے یا فلاں بن فلانہ وہ کہے گا، ہمیں ارشاد کر اللہ عزوجل تجھ پر رحم فرمائے گا۔ مگر تمہیں اس کے کہنے کی خبر نہیں ہوتی۔ پھر کہے: "اذكر ما خرجت عليه من الدنيا شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وأنك رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا وبالقرآن إماما ۔"(ترجمہ :یاد کر وہ بات کہ جس کے ساتھ تو دنیا سے آیا یعنی اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور بیشک تو اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد کے نبی ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔)

   نکیرین ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہیں گے، چلو ہم اس کے پاس کیا بیٹھیں جسے لوگ حجت سکھا چکے ، اس پر کسی نے حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) سے عرض کی ، اگر اس کی ماں کا نام معلوم نہ ہو؟ فرمایا:حوا کی طرف نسبت کرے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر و الضیاء فی الاحکام و غیرھا۔

    بعض اجلہ  ائمہ تابعین فرماتے ہیں: جب قبر  پر مٹی برابر  کرچکیں اور لوگ واپس  جائیں تو مستحب  سمجھا جاتا کہ میت سے اس کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر یہ کہا جائے :"یا فلان بن فلان قل لا الہ الا اللہ ۔"تین بار پھر کہا جائے: قل ربی اللہ و دینی الاسلام و نبیی محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔"

   اعلی حضرت قبلہ نے اس پر اتنا اور اضافہ کیا:"و اعلم ان ھٰذین الذین  اتیاک او یاتیانک انما ھما عبدان للہ لایضران و لاینفعان الا باذن اللہ  فلاتخف  و لا تحزن و اشھد ان ربک  اللہ و دینک الاسلام و نبیک محمد صلی اللہ تعالی علیہ و سلم ۔ ثبتنا اللہ و ایاک بالقول الثابت فی الحیوۃ الدنیا و فی الآخرۃ  انہ ھو الغفور الرحیم ۔   "(بہارشریعت، ج 1، ص 850 ، 851 ، مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بنایہ شرح ہدایہ میں تلقین کے متعلق یہ الفاظ بھی منقول ہیں:" يا عبد الله أو يا أمة الله اذكر ما خرجت عليه من الدنيا من شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وأن الجنة حق، والنار حق والبعث حق، وأن الساعة آتية لا ريب فيها، وأن الله يبعث من في القبور، وأنك رضيت بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد - صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نبيا ورسولا، وبالقرآن إماما، وبالكعبة قبلة، وبالمؤمنين إخوانا، " یعنی اے اللہ کے بندے یا اے اللہ کی بندی! یاد کر وہ عہد جس پر تو دنیا سے آیا یعنی  کلمہ شہادت اور یہ کہ جنت حق ہےاور دوزخ حق ہے اور مرنے کے بعد اٹھنا حق ہے اور بلاشبہ قیامت آکر رہے گی اور بیشک اللہ قبر والوں کو اٹھائے گا اور تو اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی و رسول ہونے اور قرآن کے امام ہونے، کعبہ کے قبلہ ہونے اور مومنوں کے بھائی ہونے پر راضی تھا۔(بنایہ شرح ہدایہ،ج 3، ص 208 ، مطبوعہ :کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم