Mayyat Ko Qabristan Ke Liye Kandhon Par Kyun Le Jate Hain?

 

میت کو قبرستان کے لئے کندھوں پر کیوں لے جاتے ہیں؟

مجیب:مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3008

تاریخ اجراء: 21صفر المظفر1446 ھ/27اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

       میت کی چار پائی کو کندھے پر رکھ کر قبرستان کیوں لے کر جاتے ہیں؟ اور اس کی دلیل کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   میت کی چار پائی کو کندھوں  پر اٹھا کر لے جانا سنت ہے،اسی لئے مسلمان ایسا کرتے ہیں اور اس میں مسلمان میت کی تعظیم ہے،کہ اسے مسلمانوں کی ایک تعداد کندھوں پر اٹھا کر لے جاتی ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ دین اسلام اپنے ماننے والوں کو جس طرح ان کی زندگی میں عزت و عظمت عطا فرماتا ہے  اسی طرح مرنے کے بعد بھی ان کی تعظیم و توقیر کا درس دیتا ہے۔

مذکورہ  حکم پر دلائل:

   حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ” قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حمل جوانب السرير الأربع كفر الله عنه أربعين كبيرةترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو میت کی چارپائی کو چاروں جانب سے اٹھائے،اللہ کریم اس کےچالیس کبیرہ گناہ مٹا دے  گا۔ (المعجم الاوسط،رقم الحدیث 5920،ج 6،ص 99، دار الحرمين ، القاهرة)

   ایک اور حدیث پاک میں ہے ” عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه:  إذا تبع أحدكم الجنازة فليأخذ بجوانب السرير الأربعة، ثم ليتطوع بعد أو يذر فإنه من السنة ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی  عنہ سے مروی ہے  کہ جب تم میں سے  کوئی جنازہ کے ساتھ جائے تو (باری باری)چارپائی کے چاروں پایوں کو اٹھائے، پھر چاہے تو مزید اٹھائے یا چھوڑ دے،کیونکہ  یہ سنت ہے۔(السنن الكبرى للبیھقی ، رقم الحدیث 6834،ج 4،ص 30، دار الكتب العلمية، بيروت)

   محیطِ برہانی میں ہے:ما روى ابن مسعود رضي اللہ  عنه أنه قال:من السنّة أن تحمل الجنازة من جوانبها الأربع وعن عمر رضي اللہ عنه أنه كان يدور على الجنازة من جوانبها الأربع،ولأن عمل الناس اشتهر بهذه السنّة من غير نكير منكر وإنه حجة ، ولأن المسارعة في حملها،والحمل بأربعة يكون أبلغ في المسارعة،وفيه تخفيف على الحاملين،وصيانة للميت عن السقوط،وتعظيم للميت بأن يحمله جماعة من المؤمنين على أعناقهم “ترجمہ:(اوپر ذکر کردہ حکم کی دلیل وہ حدیث پاک ہے )جو حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالی عَنْہ نے فرمایا :سنت یہ ہے کہ جنازے کو چاروں جانب سے اٹھایا جائےاور حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  جنازے کی چاروں جانب گھومتے یعنی اٹھاتے تھے،اِسی سُنَّت پر آج تک لوگوں کا بغیر کسی اختلاف کے عمل جاری  ہےاور یہ بھی شرعاً ایک دلیل ہےاور جنازه اٹھانے میں ايك دوسرے سے سبقت کرنی چاہیے اور چاروں جانب سے اٹھانے میں مسابقت کی صورت زیادہ ہوگی،نیز اس میں اُٹھانے والوں کے لیے آسانی ہے ،میت کے گِرنے سے حفاظت ہے اور میت کی تعظیم بھی زیادہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت اسے اپنی گردنوں پر اٹھاتی ہے۔(المحیط البرھانی،فصل فی الجنائز،ج 2،ص 175، دار الكتب العلمية، بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم