مجیب: مفتی
محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: SAR-7806
تاریخ اجراء: 17 رمضان المبارک 1443ھ/19 اپریل 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین
ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ لوگوں سے سنا ہے
کہ میت کی تدفین کے بعد واپس لوٹتے ہوئے 40 قدم چلنے
پر میت کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ چالیس قدم
واپسی پر قبرمیں نکیرین سوالاتِ قبر کے لیے آ چکے
ہوتے ہیں، لہذا اُس وقت میت
کے لیے دعا کرنے سے میت کو جوابات میں آسانی رہتی
ہے۔ اِس کی کیا اصل ہے؟
نیز اگر کوئی شخص جل یا ڈوب کر مر جائے اور اُس کی
تدفین کی صورت نہ ہو، تو اُس
کے لیے چالیس قدم پر دعا مانگنے کا کیا طریقہ ہو گا؟یعنی
پوچھنے کامقصدیہ ہے کہ جوڈوب گیایااسے درندےکھاگئے، تواسے
تودفنایانہیں گیا، تو کیااس کے پاس فرشتے نہیں
آتے؟ کیونکہ وہاں توچالیس قدم
چلنے کاکوئی وجودنہیں ہوتا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
تدفین ِ میت کے بعد
مخصوص وقت تک قبر کے قریب ٹھہرنا مستحب اور میت کے لیے دعائے مغفرت
واستقامت کرنا سنت ہے۔یونہی بعدِ تدفین میت کے
لیے دعائے مغفرت کرنا، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور
صحابہ کرام رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُم کے عمل سے بھی ثابت
ہے۔ جہاں تک چالیس قدم واپسی پر رُک کر دعا مانگنے کا تعلُّق ہے
کہ اِس سے میت کو جواباتِ نکیرین میں آسانی
ہوتی ہے ،تو اگرچہ بالخصوص اِس انداز اور طریقے پر کوئی روایت یا اَثْر موجود
نہیں، مگر فی نفسہ یہ عمل خلافِ شریعت نہیں، بلکہ قبر
پر کھڑے ہو کر دعا مانگنا اِسی مقصد(سوالاتِ قبر میں سہولت) کے
لیے ہوتا ہے، چنانچہ حضور اکرم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک میت
کی تدفین کے بعد تمام موجود
صحابہ سے فرمایا :اپنے بھائی کے لیے اللہ سے بخشش اور ثابت
قدمی کا سوال کرو کہ ابھی اُس سے سوالات قبر ہونے والے
ہیں۔“یہ فرمان واضح طور پر اِس چیز کی دلیل
ہے کہ بعدِ تدفین سوالاتِ نکیرین کے جواب میں ثابت
قدمی کی دعا کرنا درست اور نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے ثابت ہے۔
لہذا جب یہی دعا قبر پر درست ہے، تو چالیس قدم واپسی پر بھی
یقیناً کوئی حرج اور مضائقہ نہیں، بلکہ ایک عمدہ عمل ہونے کے ساتھ میت کے حق میں نفع بخش اور شارِع صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مطلوب ہے، البتہ اسے ضروری سمجھنا بالکل غلط ہوگا۔
سوال کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ وہ شخص جو ڈوب یا جل کر مرا ، یا پھر اُسے
کسی درندے نے کھا لیا، تو اُس کے
لیے چالیس قدم چل کر دعا مانگنا ممکن نہیں، تو کیا
اُس کے پاس فرشتے سوالات کےلیے نہیں آتے؟ ایسا نہیں ہے، بلکہ
ہر فوت ہونے والے سے سوالات ہوتے ہیں ،اگرچہ اسے دفن نہ کیا جائے
۔
تدفین کے بعدمیت
کے لیے دعائے مغفرت کے متعلق سنن ابی
داؤد ، السنن الکبریٰ، مصابیح السنۃ، مشکاۃ
المصابیح اور الاذکار للنووی میں
ہے:النظم للاول: ’’ كان النبي صلى اللہ
عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال:استغفروا لأخيكم وسلوا له
بالتثبيت؛ فإنه الآن يسأل‘‘ترجمہ:نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک میت کی تدفین سے فارغ ہوئے ،تو اُس کے
سر کی جانب کھڑے ہوکر صحابہ کرام رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا: اپنے
بھائی کے لیے اللہ سے بخشش اور ثابت قدمی کا سوال کرو کہ
ابھی اُس سے سوالات قبر ہونے والے ہیں۔(سنن ابی داؤد، جلد5، باب الاستغفار عند القبر للميت، صفحہ
127، مطبوعہ دار الرسالۃ العالمیۃ، بیروت)
علامہ مظہرالدین مظہری حنفی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:727ھ/1326ء) نے اِس حدیث کے تحت لکھا:’’قوله:
"وقف عليه" أي:وقف على رأس القبر
"استغفروا لأخيكم" أي: اطلبوا المغفرة من اللہ تعالى لهذا الميت،
"ثم سلوا" أي: اسألوا واطلبوا من اللہ تعالى أن يثبت لسانه بجواب المنكر والنكير،
فإنهما يسألانه في هذه الساعة وهذا الحديث
يدل على أن دعاء الحی ينفع الميت وعلى أنه يستحب للأحياء أن يدعوا للأموات ‘‘ترجمہ:یعنی نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میت کےسر کی جانب کھڑے ہوئے اور فرمایا:اپنے
بھائی کے لیے اللہ سے بخشش مانگو۔ یعنی اِس
میت کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش کا سوال کرو۔پھر
اللہ تعالیٰ سے اِس میت کے لیے منکر نکیر کے جوابات
میں زبان کی استقامت مانگو، کیونکہ اِس وقت وہ دونوں اِس سے
سوال کر رہے ہیں۔ یہ حدیث اِس چیز پر دلیل ہے
کہ زندہ کی دعا مردہ کو فائدہ دیتی ہے، نیز یہ
بھی معلوم ہوا کہ زندوں کے
لیے اپنے وصال شدگان کے حق میں دعا کرنا مستحب ہے۔(المفاتیح فی شرح المصابیح، جلد1، صفحہ
235، مطبوعہ دار النوادر، کویت)
علامہ عبدالرؤف مُناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1031ھ/1621ء) کلماتِ
حدیث” فإنه
الآن يسأل“ کے تحت
لکھتے ہیں:’’يسأله الملكان
منكر ونكير فهو أحوج ما كان إلى الاستغفار وذلك لكمال رحمته بأمته ونظره إلى
الإحسان إلى ميتهم ومعاملته بما ينفعه في قبره ويوم معاده قال الحكيم: الوقوف على
القبر وسؤال التثبيت للميت المؤمن في وقت دفنه مدد للميت بعد الصلاة لأن الصلاة
بجماعة المؤمنين كالعسكر له اجتمعوا بباب الملك يشفعون لہ‘‘ ترجمہ:دو
فرشتے یعنی منکر اور نکیر اُس سے سوال کر رہے ہیں اور
میت اپنے حق میں دعائے بخشش کے لیے انتہائی محتاج ہے اور
نبی اکرم صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا صحابہ کو دعا کا کہنا افرادِ امت پر کمالِ رحمت اور اُس میت پر نظرِ کرم کے لیے تھا، نیز یہ عمل اُس کے لیے
قبر وحشر میں نفع پہنچانے والاتھا۔حکیم ترمذی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ نے فرمایا:بعدِ تدفین قبر پر رُکنا اور میت
کی ثابت قدمی کے لیے خدا کی بارگاہ میں دستِ دعا
بلند کرنا، نمازِ جنازہ کے بعد میت کے لیے مدد ہے، کیونکہ اہلِ
ایمان کے گروہ کے ساتھ میت پر نمازِ جنازہ پڑھنا، گویا اُس لشکر
کی طرح ہے ،جو بادشاہ کے دروازے پر
جمع ہو کر میت کے لیے بخشش کی بھیک مانگ رہا ہے۔(فیض القدیر، جلد5، صفحہ 151، مطبوعہ المكتبة
التجارية الكبرى ، مصر )
امام اہلسنَّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’دفن کے بعد دعا سنت ہے۔امام محمد بن علی حکیم
ترمذی قدس سرہ
الشریف دعا بعد دفن کی حکمت میں فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ بجماعت مسلمین ایک لشکر تھا کہ آستانہ شاہی
پر میت کی شفاعت وعذر خواہی کے لیے حاضر ہُوا اور اب قبر
پر کھڑے ہوکر دُعا،یہ اس لشکر کی مدد ہے کہ یہ وقت میت کی
مشغول کا ہے کہ اُسے اُس نئی جگہ کا ہول اور نکیرین کا سوال پیش
آنے والا ہے۔(اِس نقل کے بعد امام اہلِ سنت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ خود لکھتے ہیں)اور میں گمان نہیں کرتا کہ یہاں استحبابِ دعا کا
عالَم میں کوئی عالِم منکر ہو۔‘‘(فتاویٰ
رضویہ، جلد5،صفحہ661،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
صدرالشریعہ مفتی محمد
امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’دفن کے بعد قبر کے پاس اتنی دیر تک ٹھہرنا مستحب ہے،جتنی
دیر میں اونٹ ذبح کر کے گوشت تقسیم کر دیا جائےکہ ان کے رہنے
سے میّت کو انس ہو گا اور نکیرین کا جواب دینے میں
وحشت نہ ہوگی اور اتنی دیر تک تلاوتِ قرآن اور میّت کے
ليے دُعا و استغفار کریں اور یہ دُعا کریں کہ سوال نکیرین
کے جواب میں ثابت قدم رہے۔‘‘(بھار شریعت،
جلد1، حصہ4، صفحہ 846، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
مزید ایک روایت
میں تو باقاعدہ صحابی رسول حضرت عمرو
بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے وقتِ نزع اپنے قریبی لوگوں کو وصیت کی
کہ میری قبر پر تدفین کے بعد موجود رہ کر ذکر اور دعائیں
کرتے رہناتا کہ مجھے انسیت حاصل ہو اور اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں کو درست جوابات دے سکوں، چنانچہ علامہ
ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’روي أن
عمرو بن العاص قال وهو في سياق الموت: إذا أنا مت فلا تصحبني نائحة ولا نار، فإذا
دفنتموني فشنوا علي التراب شنا، ثم أقيموا حول قبري قدر ما ينحر جزور، ويقسم لحمها
حتى أستأنس بكم وأنظر ماذا أراجع رسل ربی‘‘ ترجمہ:روایت کیا گیا کہ حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے وقتِ نزع ارشاد فرمایا:جب میں انتقال کر جاؤں تو
میرے قریب نوحہ کرنے والی اور آگ کو مت لانا۔ جب تم مجھے
دفن کر چکو تو میری قبر کی مٹی پر پانی کا چھڑکاؤ
کرنا، پھر میری قبر کے ارد گرد دائرہ بنا کر کھڑے ہو
جانا۔اِتنی دیر ٹھہرنا کہ جتنی دیر میں اونٹ
نحر کیا جاتا اور اُس کا گوشت تقسیم کر دیا جاتا ہے، یہاں
تک کہ تمہارے کھڑے رہنے سے مجھے انسیت کا حصول ہو اور میں سمجھ پاؤں
کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتوں کو کیا جواب دے رہا
ہوں۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد3، صفحہ169، مطبوعہ کوئٹہ)
سوالاتِ قبر فقط مقبور کے ساتھ ہی خاص نہیں، بلکہ کسی بھی طرح مرنے
والے سے یہ سوالات ہوں گے، چنانچہ علم الکلام کی مشہور کتاب”جوھرۃ التوحید“ کے شارِح علامہ ابراہیم بن محمد بیجوری
رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات : 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’يسأل
الميت ولو تمزقت أعضاؤه أو أكلته السباع فی أجوافها، إذ لا يبعد أن اللہ
يعيد له الروح في أعضائه ولو كانت متفرقة لأن قدرة اللہ صالحة لذلك‘‘ ترجمہ:مرنے والے سے
سوالاتِ قبر پوچھے جائیں گے، اگرچہ اُس کے اعضاء بکھر چکے ہوں یا
درندے کھا چکے ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے
بعید نہیں کہ وہ اعضاء
کی طرف روح کو لوٹا دے، اگرچہ اعضاء
بکھر چکے ہوں، کیونکہ خدا کی قدرت یوں کرنے کی طاقت رکھتی ہے ۔(تحفۃ المرید شرح جوھرۃ التوحید،
صفحہ 185، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اِسی ” جوھرۃ التوحید “ کی دوسری شَرْح بنام ”القول السدید“ میں ہے:’’يسال
كل احد ولو تمزقت اعضاءه او اكلته السباع في اجوافها اذ لا يبعد ان يخلق اللہ
الحياة فيها‘‘ ترجمہ:ہر ایک سے سوالاتِ
نکیرین ہوں گے، خواہ اُس کے اعضاء ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں یا اُسے
درندے کھا چکے ہوں، کیونکہ اُن
بکھرے ہوئے اعضاء میں زندگی کو پیدا کرنا، خدا کی قدرت کےلیے بعید نہیں۔(القول السدید شرح جوھرۃ التوحید، صفحہ
127، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
صدرالشریعہ مفتی محمد
امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:’’مردہ اگر قبر میں دفن
نہ کیا جائے، تو جہاں پڑا رہ گیا یا پھینک دیا گیا،
غرض کہیں ہو اُس سے وہیں سوالات ہوں گے اور وہیں ثواب یا
عذاب اُسے پہنچے گا، یہاں تک کہ جسے شیر کھا گیا تو شیر
کے پیٹ میں سوال و ثواب و عذاب جو کچھ ہو پہنچے گا۔(بھار شریعت، جلد1، حصہ1، صفحہ113، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
تیجے کے چنوں کا مالدار کو کھانا کیسا؟
میت کے غیر ضروری بال کاٹنے کا حکم؟
غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا حکم؟
کیا قبر میں شجرہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر کتنی دیرتک ٹھہرنا چاہیے؟
قبر بیٹھنے کی صورت میں قبر کے اوپر کی تعمیر نو کرسکتے ہیں؟
نماز جنازہ کی تکرار کرناکیسا ہے؟
غسل میت سے پہلے میت کے پاس تلاوت کرنا کیسا؟