Mayyat Ko Bila Wajah 2 Bar Ghusl Dena Kaisa?

 

میت کو بلاوجہ دوبار غسل دینا کیسا ؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-11949

تاریخ اجراء: 02  محرم الحرام 1445ھ/21 جولائی 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ میت کو ایک مرتبہ سنت کے مطابق غسل دے دینے کے بعد بغیر کسی وجہ کے دوبارہ غسل دینے کی صورت میں کیا بندہ گنہگار ہوگا؟حوالے کے ساتھ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال کا جواب جاننے سے پہلے یہ یاد  رہے کہ میت کو غسل دیتے وقت اس کی ہر کروٹ پر تین تین مرتبہ پانی بہانا مسنون ہے ؛بغیر کسی حاجت کے تین مرتبہ پر زیادتی کرنا اسراف، مکروہِ تحریمی و ناجائز ہے ، بلکہ فقہائے کرام نے تو یہاں تک صراحت فرمائی ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد اگر میت کے جسم سے کوئی نجاست خارج ہوجائے تب بھی غسل کا اعادہ نہیں کیا جائے گا، فقط اس نجاست کو صاف کرکے اس جگہ پانی بہادینا ہی کافی ہوگا،وجہ اس کی یہ ارشاد فرمائی کہ  میت کو دوبارہ غسل دینے کی مطلقاً کوئی حاجت نہیں۔

   اس پوری تفصیل سے واضح ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں جب میت کو ایک مرتبہ سنت کے مطابق غسل دے دیا گیا ، تو اب بلا وجہ شرعی دوبارہ غسل دینے کی اصلاً کوئی حاجت نہیں، لہٰذا اس صورت میں پانی بہانا بلا شبہ پانی کو بے کار ضائع کرنا ہے ، جو کہ اسراف اور ناجائز و گناہ ہے اور ایسا کرنے والا شخص گنہگار بھی ہوگا۔

   میت کو غسل دیتے ہوئے بلا حاجت تین بار سے زائد پانی بہانا اسراف اور مکروہِ تحریمی ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:(ويصب عليه الماء عند كل اضطجاع ثلاث مرات) لما مر (وإن زاد عليها أو نقص جاز) یعنی میت پر ہر کروٹ پر تین مرتبہ پانی بہایا جائے جیسا کہ ماقبل یہ بات گزر چکی ہے،  اور اگر کسی شخص نے اس پر زیادتی کی یا کمی، تو یہ بھی جائز ہے۔

(جاز)کے تحت فتاویٰ شامی میں ہے:” أي صح وكره بلا حاجة لأنه إسراف أو تقتير “ ترجمہ : یعنی درست ہے لیکن  بلاحاجت ایسا کرنا مکروہ ہے، کیونکہ اس میں  اسراف ہے یا پھرحد سے کمی کرنا ہے۔ (رد المحتار مع الدر المختار، باب صلاۃ الجنائز،  ج 03، ص104، مطبوعہ کوئٹہ)

    (جاز)کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے :ای صح لا حل والا فھما اسراف و تقتیر والحکم فیھما کراھۃ التحریم یعنی ایسا کرنا درست تو ہے مگر حلال نہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو بلا شبہ یہ دونوں باتیں اسراف اور تقتیر میں داخل ہیں اور حکم ان دونوں میں کراہتِ تحریمی کا ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، باب صلاۃ الجنائز، ج 01، ص366، مطبوعہ کوئٹہ)

   نیز حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح  میں ہے :ويسن أن يصب الماء عليه عند كل إقعاد ثلاثاً ، والزيادة علی الثلاث جائزة للحاجة، وإلا ينبغي أن يكون إسرافاً یعنی میت پر ہر کروٹ پر تین مرتبہ پانی بہانا مسنون ہے۔ البتہ حاجت کے وقت تین پر زیادتی کرنا شرعاً  جائز ہے، اور اگر حاجت نہ ہو تو چاہیے کہ یہ اسراف کے زمرے میں آئے۔( حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، باب احکام الجنائز، ج 01، ص205، مکتبہ غوثیہ)

   غسل کے بعد اگر نجاست نکل آئے تو دوبارہ غسل کے اعادے کی کوئی حاجت نہیں۔ جیسا کہ بنایہ شرح ہدایہ میں ہے :(فإن خرج منه شيء غسله ولا يعيد غسله ولا وضوءه، لأن الغسل عرفناه بالنص وقد حصل مرة) أي وقد حصل الغسل مرة، فلا يحتاج إلى الإعادةترجمہ :  اگر میت کو غسل دینے کے بعد اس کے بدن سے کوئی نجاست نکلے تو اس نجاست کی جگہ کو دھودیا جائے پورے غسل کا اعادہ نہ کیا جائے اور نہ ہی وضو کا اعادہ کیا جائے کیونکہ غسل کو ہم نے نص سے پہچانا ہے اور یہ ایک مرتبہ میں ہی حاصل ہوچکا ہے یعنی ایک مرتبہ غسل حاصل ہوچکا ہے پس اب اس کے اعادے کی کوئی حاجت نہیں۔(البنایۃ شرح الھدایۃ،باب الجنائز، ج 03، ص 452-451، مطبوعہ ملتان )

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ”بعد نہلانے کے میّت کے پانی یا دوا یا پاخانہ مُنہ یا پاخانہ کی جگہ سے نکلے تو غسل دوبارہ دیا جائے گا یا جگہ پاک کی جائے گی؟“ آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”غسل دوبارہ دینے کی مطلقاً کسی حال میں حاجت نہیں۔ اگر نجاست برآمد ہو دھودی جائے۔“(فتاویٰ رضویہ، ج 09، ص 98، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم