Mayyat ko Amanatan Dafan Karne Aur Wapas Nikalne ka Hukum

میت کو امانتاً دفن کرنے اور پھر نکالنے کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD- 9080

تاریخ اجراء:29صفر المظفر1446ھ/03ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ  ایک  شخص اپنے گھر سے غائب ہو گیا، تلاش کے باوجود  نہ ملا ، کچھ  ماہ بعد گھر والوں نے اخبار میں اس کے انتقال کی خبر پڑھی ، تو متعلقہ تھانے پہنچے ، معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ ادارے والوں نے خود ہی اس کی تجہیز وتکفین کے بعد نمازِ جنازہ ادا کر کے قریبی قبرستان  میں امانتاً دفن کر دیا ہے ، اب اس کے  گھر والے چاہتے ہیں  کہ ہم میّت کو  قبر سے نکال کر اپنے علاقے کے قبرستان میں دفن کریں ، شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیا میّت کو امانتاً دفن کیا جا سکتا ہے تاکہ بعد میں نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے ؟ اور کیا مذکورہ  صورت میں اہلِ خانہ میّت کو قبر سے نکال کر اپنے علاقے کے قبرستان میں منتقل کر سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شریعتِ  مطہرہ میں امانتاً دفن کرنے  کی کچھ حیثیت نہیں ، جہاں ایک بار  دفن کر دیا ، وہاں سے بلا اجازتِ  شرعی منتقل کرنا ، جائز نہیں ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں میّت کو اپنے علاقہ میں دفن کرنے کے لیے قبر کھولنا اور میّت کو دوسری جگہ منتقل کرنا ، جائز نہیں ۔ 

   مسلمان کی قبر کا احترام بیان کرتے ہوئے  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :” لأن أمشي على جمرة، أو سيف، أو أخصف نعلي برجلي، أحب إلي من أن أمشي على قبر مسلم“ترجمہ : میں انگارے یا تلوار پر چلوں یا اپنا جوتا پاؤں کے ساتھ سی لوں، یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں کسی مسلمان کی قبر پر چلوں۔ (سنن ابن ماجہ ، جلد 1 ، صفحہ 499 ، مطبوعہ دار احیاء  الکتب العربیہ )

    تبیین  الحقائق  میں ہے:”لا يخرج الميت من القبر بعد ما أهيل عليه التراب للنهي الوارد عن نبشه. قال  رحمه اللہ : (إلا أن تكون الأرض مغصوبة) فيخرج لحق صاحبها إن شاء، وإن شاء سواه مع  الأرض وانتفع  به زراعة أو غيرها “ ترجمہ :  اور قبر پر مٹی ڈَل جانے کے بعد  میت کو نہیں نکال سکتے ، کیونکہ قبر کھولنے کی ممانعت وارد ہے ، مصنف عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے ہیں : مگر یہ کہ میت کسی کی غصب شدہ زمین میں دفن کر دی گئی  ،تو زمین والے کو  اختیار ہے  ، چاہے تو میّت کو قبر سے نکال دے   اور چاہے تو زمین برابر کر دے  اور  اپنی زمین سے کھیتی وغیرہ کے ذریعے فائدہ حاصل کرے ۔( تبیین  الحقائق  ، جلد 1 ، صفحہ 246 ،مطبوعہ قاھرہ )

   فتح القدير میں ہے :”ولا ينبش بعد إهالة التراب لمدة طويلة ولا قصيرة إلا لعذر.قال المصنف في التجنيس: والعذر أن الأرض مغصوبة ... ولذا لم يحول كثير من الصحابة وقد دفنوا بأرض الحرب إذ لا عذر “ترجمہ : قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد  خواہ ابھی تھوڑا وقت گزرا ہو یاطویل زمانہ  گزر چکا ہو ، بہر صورت  بغیر شرعی عذر کے قبر کھولنے کی اجازت نہیں ۔ مصنف  عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ تجنیس میں فرماتے ہیں کہ عذر یہ ہیں کہ غصب شدہ زمین میں دفن کر دیا ہو ، وغيره ، اسی وجہ سے   بہت سے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے مبارک جسموں کو منتقل نہیں کیا گیا ، حالانکہ ان کو دار الحر ب میں دفن کیا گیا تھا ، کیونکہ کوئی شرعی عذر نہیں تھا ۔ (فتح القدیر ، جلد 2 ، صفحہ 141 ، مطبوعہ دارا لفکر ، بیروت )

   قبر کشائی  کرنے کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے:”النبش حرام حقالله تعالى“ترجمہ:قبرکھودنااللہ پاک  کےحق کی  وجہ سےحرام ہے۔ (بدائع الصنائع،جلد2،صفحہ55،مطبوعہ کوئٹہ)

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت  الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سے سوال ہوا کہ ایک شخص  اپنے والد کی قبر کھول کر اس کی میّت اپنے علاقے میں دفن کرنا چاہتا ہے ؟ تو  امامِ اہلِ سنّت  عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے جواباً ارشاد فرمایا :”صورتِ مذکورہ میں نبش حرام، حرام ، سخت حرام، اور میّت کی اشد  توہین  و ہتک سرّ رب العٰلمین ہے۔ “(فتاویٰ رضویہ ، جلد 9 ، صفحہ405 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم