Mayyat Ki Aankhon Mein Lens Lage Hon Tu Unhen Nikalne ka Hukum

میت کی آنکھوں میں لینز لگے ہوں، تو انہیں نکالنے کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی  نمبر:82

تاریخ  اجراء: 05ذوالحجۃ الحرام1442ھ/16جولائی2021ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میت کی آنکھوں میں لینز لگے ہوں،تو انہیں نکالنے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   آنکھوں  میں دو طرح کے لینز لگائے جاتے ہیں:

   (1)جنہیں آپریشن کے ذریعہ آنکھ کے ڈھیلے کے اندرفِکس کر دیاجاتا ہے اور انہیں بغیر آپریشن اور تکلیف کے نکالنا ممکن نہیں ہوتاجیسے (Intraocular lens)۔

   (2)جنہیں آنکھ کے ڈھیلے کے اوپر چپکا دیا جاتا ہے،انہیں جب چاہیں بآسانی نکال سکتےہیں اور جب چاہیں لگا سکتے ہیں جیسے(Contect lens)۔

   اس تفصیل کے بعد پوچھی گئی صورت کا جواب یہ ہے کہ اگر میت کی آنکھوں میں Intraocular lens لگے ہوں ،تو انہیں نہیں نکالا جائے گا،کیونکہ اس سے میت کو تکلیف ہوگی اور جس طرح زندہ شخص کو بلا وجہ تکلیف دیناجائز نہیں،یونہی  میت کو دینا بھی جائزنہیں۔ البتہ اگر میت کی آنکھوں میں Contect lensلگے ہوں اوربآسانی نکالے جاسکتے ہوں، توانہیں نکال لیناچاہئے،کیونکہ لینزنظر کی کمزوری کی وجہ سے یا زینت حاصل کرنے کے لئے لگائے جاتے ہیں اور اب  میت کو اس کی حاجت نہیں رہی،لہذاانہیں نکال لیا جائے گا۔

   زندہ کی طرح میت کو بھی ایذاہوتی ہے۔چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی،وہ فرماتے ہیں:’’اذی المومن فی موتہ کاذاہ فی حیاتہ‘‘ ترجمہ :مسلمان کو مرنے کے بعد ایذا دینا ایسے ہی ہے،جیسے اس کی زندگی میں اسے ایذا دینا۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجنائز، باب ما قالوا فی سب الموتی۔۔الخ، ج 3، ص 245،مطبوعہ ملتان)

   میت کو ایذا دینے کی اجازت نہیں۔چنانچہ  حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی منقول ہے،آپ فرماتے ہیں:’’کما اکرہ اذی المومن فی حیاتہ، فانی اکرہ اذاہ بعد موتہ‘‘ ترجمہ: میں جس طرح مسلمان کی زندگی میں اسے ایذا دینے کو ناپسند کرتا ہوں،یونہی اس کی موت کے بعد بھی اسے ایذا دینے کو ناپسند کرتا ہوں۔(شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور، صفحہ 292، دار المعرفۃ، لبنان)

   اورمیت کی ایذا کے حوالہ سے فتاوی شامی میں ہے:’’ان المیت یتاذی بما یتاذی بہ الحی‘‘ ترجمہ :بیشک مردہ کو بھی اس چیز سے ایذا ہوتی ،جس سے زندہ کو ہوتی ہے۔(فتاوی شامی، کتاب الطھارۃ، فصل فی الاستنجاء، ج 1، ص 612،مطبوعہ پشاور)

   جن چیزوں کی میت کوحاجت نہیں اور انہیں بآسانی میت کے جسم سے جدا کرسکتے ہوں،تو انہیں جدا کر لیا جائے گا۔چنانچہ مبسوطِ سرخسی میں شہید کے حوالہ سے ہے:’’ینزع عنہ السلاح والجلد والفرو والحشو والخف والقلنسوۃ،لانہ انما لبس ھذہ الاشیاء لدفع باس العدو وقد استغنی عن ذلک‘‘ترجمہ:شہید کے جسم سے اسلحہ،کھال،پوستین،روئی کا کپڑا،موزے اور ٹوپی اتار لی جائے گی،کیونکہ یہ چیزیں دشمن کے ضرر کو دور کرنے کے لئے پہنی جاتی ہیں اور میت  کو ان کی حاجت نہیں رہی۔(مبسوطِ سرخسی،ج2،ص79،مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی بارے میں بدائع الصنائع میں ہے:’’ینزع عنہ الجلد والسلاح والفرو والحشو والخف والمنطقۃ والقلنسوۃ۔۔وھذا لان  ما یترک یترک لیکون کفناً والکفن ما یلبس للستر وھذہ الاشیاء تلبس اما للتجمل والزینۃ او لدفع البرد او لدفع معرۃ السلاح ولاحاجۃ للمیت الی شیء من ذلک‘‘ترجمہ:شہید کے جسم سے کھال، اسلحہ، پوستین،روئی کا کپڑا،موزے،کمر پر باندھا جانے والا پٹا اور ٹوپی اتار لی جائے گی اور یہ حکم اس لئے ہے ، کیونکہ شہید کے جسم پر جو کپڑے باقی رکھے جاتے ہیں ،وہ اس لئے رکھے جاتے ہیں،تاکہ وہ کفن ہو جائیں اور کفن وہ ہوتا ہے جو ستر چھپانے کے لئے پہنایا جاتا ہے اور یہ چیزیں خوبصورتی و زینت حاصل کرنےیاٹھنڈک دور کرنے یااسلحے کے نقصان کو دور کرنے کے لئے پہنی جاتی ہیں اور میت کو ان میں سے کسی چیز کی بھی حاجت نہیں رہی۔ (بدائع الصنائع،ج2،ص73،مطبوعہ کوئٹہ)

   اوراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ  سے سوال ہوا کہ مرنے کے بعد مصنوعی دانت نکالنا چاہئے یا نہیں؟ تواس کے جواب میں  ارشاد فرمایا:’’نکال لینا چاہئے، اگر کوئی تکلیف نہ ہو۔‘‘(ملفوظات اعلی حضرت، صفحہ 358، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم