Mayyat Ke Tarke Se Guzishta Salon Ki Zakat Nikalne Ka Hukum

میّت کے ترکہ سے گزشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کرنا

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13094

تاریخ اجراء:        21ربیع الثانی1445 ھ/06نومبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ ابھی کچھ عرصہ قبل میری بیوی کا انتقال ہوا ہے، اس نے اپنی فرض زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی۔معلوم یہ کرنا ہے کہ مرحومہ کے چھوڑے ہوئے زیورات اور سامان سے زکوٰۃ نکالنے کے بعد پھر ترکہ تقسیم کیا جائے گا یا پھر اس کی کیا صورت بنے گی؟ جبکہ مرحومہ بیوی نے زکوٰۃ  ادا کرنے کی وصیت بھی نہیں کی تھی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس شخص پر زکوۃ واجب ہو مگر ادائیگی سے پہلے ہی اُس کا انتقال ہوجائے، تو اُس کے چھوڑے ہوئے مال سے زکوٰۃ نکالنا ورثاء پر شرعاً لازم نہیں ۔ ہاں! اگر مرنے والا زکوٰۃ ادا کرنے کی وصیت کرجائے تو اُس کی یہ وصیت ایک تہائی مال میں نافذ ہوگی۔لہذا پوچھی گئی صورت  میں مرحومہ بیوی کے چھوڑے ہوئے زیورات اور سامان سے زکوٰۃ نکالنا ورثاء پر لازم نہیں۔

   البتہ صورتِ مسئولہ میں اگر عاقل و بالغ ورثاء اپنے اپنے حصوں سے زکوٰۃ کی ادائیگی کی اجازت دے  دیں  تو صرف اُنہی کے حصوں سے مرحومہ کی زکوٰۃ  ادا کی جاسکتی ہے،  اس صورت میں ور ثاء ثواب کے حقدار ہوں گے، مگر جو ورثاء اجازت نہ دیں یاپھر اجازت دینے کے اہل ہی نہ ہوں جیسے نابالغ یا غیر عاقل ورثاء تو ان کے حصے سے زکوٰۃ کی ادائیگی کسی صورت نہیں ہوسکتی۔

   مرنے والے نے اگر وصیت نہ کی ہو تو ترکے سے زکوٰۃ ادا نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ بحر الرائق، فتاوٰی شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے:”و النظم للاول“ أنه لو مات من عليه الزكاة لاتؤخذ من تركته لفقد شرط صحتها، وهو النية إلا إذا أوصى بها فتعتبر من الثلث كسائر التبرعاتیعنی  مرنے والے پر زکوٰۃ لازم تھی تو اس کے ترکے سے نہیں لی جائے گی کہ یہاں زکوٰۃ ادا ہونے کی شرط یعنی  نیت نہیں پائی جارہی مگر یہ کہ  زکوٰۃ ادا کرنے کی وصیت کرجائے تو  اس کی وصیت دیگر تبرعات کی مثل ایک تہائی میں معتبر ہوگی۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق، کتاب الزکاۃ، ج 02، ص 227، دار الكتاب الإسلامي)

   الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:”وإذا مات من عليه زكاة أو فطرة أو كفارة أو نذر أو حج أو صيام أو صلوات ولم يوص بذلك لم تؤخذ من تركته عندنا إلا أن يتبرع ورثته بذلك وهم من أهل التبرع فإن امتنعوا لم يجبروا عليه وإن أوصى بذلك يجوز وينفذ من ثلث مالہ“یعنی جب کوئی شخص اس حال میں فوت ہو کہ اس کے ذمے زکوٰۃ،فطرہ،کفارہ،منت،حج،روزوں،یا نمازوں کی ادائیگی باقی ہو اور اس نے مرنے سے پہلے ان کے متعلق وصیت بھی نہ کی ہو تو ہمارے نزدیک اس کے ترکہ میں سے ان کی ادائیگی نہیں کی جائے گی ،ہاں اگر ورثاء بطورِ احسان ادا ئیگی کریں اور وہ تبرع کے اہل بھی ہوں تو حرج نہیں اور اگر نہ کریں تو ان پر کوئی جبر نہیں۔  اگر فوت ہونے والے نے ان کے متعلق ادائیگی کی وصیت کی تھی تو درست ہے اور تہائی مال میں اس کی وصیت نافذ ہوگی ۔(الجوہرۃ النیرۃ، کتاب الزکاۃ، ج 01،ص 135، المطبعة الخيرية)

   بہارشریعت میں ہے: ”جس شخص پر زکاۃ واجب ہے اگر وہ مر گیا تو ساقط ہوگئی یعنی اس کے مال سے زکاۃ دینا ضرور نہیں، ہاں اگر وصیّت کر گیا تو تہائی مال تک وصیّت نافذ ہے اور اگر عاقل بالغ ورثہ اجازت دے دیں تو کُل مال سے زکاۃ ادا کی جائے۔ “(بہارِشریعت،ج01، ص892،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم