Mayyat Ke Masnoi Dant Nikalne Ka Kya Hukum Hai ?

میت کے مصنوعی دانت نکالنے کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی  نمبر:83

تاریخ  اجراء: 06ربیع الاول1438ھ06دسمبر2016ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ منہ میں جو مصنوعی دانت لگائے جاتے ہیں، میت کو غسل دیتے وقت وہ نکالے جائیں گےیا نہیں؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   منہ میں دو طرح کے مصنوعی دانت لگائے جاتے ہیں، (۱) وہ دانت جوسرجری کے بعد مضبوط طریقے سے مستقل طور پہ فٹ کر دئیے جاتے ہیں، اور انہیں بغیر تکلیف کے نکالنا ممکن نہیں ہوتا، ایسے دانت میت کے منہ میں لگے ہوں تو انہیں نہیں نکالا جائے گا، کیونکہ نکالنے سے میت کو اذیت ہو گی، اور میت کو اذیت دینا منع ہے۔

   علماء فرماتے ہیں کہ جس چیز سے زندہ کو تکلیف پہنچتی ہے، اسی سے مردہ کو بھی پہنچتی ہے۔چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں:’’اذی المومن فی موتہ کاذاہ فی حیاتہ‘‘ ترجمہ : مسلمان مردہ کو ایذا دینا ایسا ہے جیسے زندہ کو۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجنائز، جلد 3، صفحہ 245، مطبوعہ ملتان)

   در مختار میں ہے:’’ان المیت یتاذی بما یتاذی بہ الحی‘‘ ترجمہ : جس چیز سے زندہ کو ایذا پہنچتی ہے، مردے کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔(رد المحتار، کتاب الطھارۃ، فصل فی الاستنجاء، جلد 1، صفحہ 612، مطبوعہ پشاور)

   اور میت کو اذیت دینا منع ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی منقول، فرمایا: ’’کما اکرہ اذی المومن فی حیاتہ، فانی اکرہ اذاہ بعد موتہ‘‘ ترجمہ: میں جس طرح مسلمان کی ایذا اس کی زندگی میں مکروہ جانتا ہوں، یونہی بعدِ موت اس کی ایذا کو ناپسند کرتا ہوں۔(شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور، صفحہ 292، دار المعرفۃ، لبنان)

    (۲)اور دوسرے وہ دانت جو منہ میں اس انداز سے فٹ کئے جاتے ہیں،کہ جب چاہیں بآسانی نکال سکتے، اور جب چاہیں لگا سکتے ہیں، ایسے دانت لگے ہوں، تو انہیں نکال لینا چاہئے۔

   سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ مرنے کے بعد مصنوعی دانت نکالنا چاہئے یا نہیں؟ تو جواباً ارشاد فرمایا:’’نکال لینا چاہئے، اگر کوئی تکلیف نہ ہو، اور اس کے ٹوٹے ہوئے دانت کفن میں رکھ دئیے جائیں۔‘‘(ملفوظات اعلی حضرت، صفحہ 358، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم