Mayyat ko Ghar Mein Dafan Karna Phir Nikal Kar Dusri Jagah Dafan Karna?

میت کو گھر میں دفن کرنے کے بعد نکال کر دوسری جگہ دفنانا

مجیب:مفتی محمد قاسم عطا ری

فتوی نمبر:FSD-8993

تاریخ اجراء:12 محرم   الحرام    1446 ھ / 19  جولائی 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص   یو کے میں  فوت ہوا، ان کے والد صاحب نے  اپنے  ملکیتی مکان میں بیٹے کو دفنا دیا،اب  میت کے دوسرے بھائی کا کہنا ہے کہ   گھر میں قبر مناسب نہیں لگتی،اس کو قبرستان  میں ہونا چاہیے،کیا وہ  میت کو قبر سے نکال کر قبرستان میں دفن کر سکتے ہیں؟اس  میں کن کن احتیاطوں کو مدّ نظر رکھنا پڑے گا؟اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں قبر کھولنے  اور میت کو قبرستان منتقل کرنے کی اجازت نہیں، کیونکہ  حکم ِشریعت یہ ہے کہ میت کو دفن کرنے کے بعد  بلاعذر شرعی قبر کھولنا،اللہ کے رازوں میں دخل اندازی کرنا،میت کی توہین کرنا  اور ناجائز وحرام  کام کا ارتکاب کرنا ہے۔

   تدفین کے بعد میت کو قبر سے نکالنا جائز نہیں، جیساکہمراقی الفلاح شرح نور الایضاحمیں ہے:”ولا یجوز نقلہ أی: المیت بعد دفنہ بان اھیل علیہ التراب بالاجماع بین أئمتنا، طالت مدة دفنہ أو قصرت للنهي عن نبشه والنبش حرام حقا لله تعالیٰ“ترجمہ:ہمارے آئمہ کرام کا اس بات پر اجماع ہےکہ  میت کو دفن کرنے کے بعد اگر اس پر مٹی ڈال دی گئی ہو،تو اس کو نکال کر منتقل کرنا،جائز نہیں،اگرچہ دفن کرنے کی مدت زیادہ ہو یا کم،کیونکہ قبر کھولنے کے متعلق شریعت کی طرف سے نہی وارد کی گئی اور اللہ کریم کا حق ہونے کی وجہ سے بھی قبر کھولنا حرام ہے۔(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح،صفحہ306، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   تنویر الابصار اور در مختار میں ہے:”ولا يخرج منه بعد اهالة التراب الا لحق آدمي كان تكون الأرض مغصوبة أو أخذت بشفعة“ترجمہ:قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد میت کو نہیں نکالا جائے گا،سوائے اس  صورت میں کہ اس جگہ سے  آدمی  کا کوئی  حق وابستہ ہو،جیساکہ  وہ زمین غصب والی ہو یا اس کے ذریعے سے حق ِ شفعہ لیا گیا ہو۔(در مختار مع رد المحتار،جلد3،صفحہ170-171،مطبوعہ کوئٹہ)

   ایک مرید نے اپنے پیر  صاحب کی وصیت پر عمل کرتےہوئے،انہیں اپنے حجرے میں دفن کر دیا،پھر اولادنے میت کو اپنے شہر میں  منتقل کرنا چاہا،تواس کے متعلق اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:صورتِ مذکورہ میں نبش حرام، حرام، سخت حرام، اور میّت کی اشد توہین وہتک سرّ رب العٰلمین ہے اور جو بیٹا باپ کے ساتھ ایسا چاہے عاق وناخلف ہے۔ اگر چہ وصیت دربارہ دفن واجب العمل نہیں، نہ یہاں دفن بے رضائے مالک کے مسئلہ کو کچھ دخل تھا کہ رضا پر تفریع حکم ہو۔(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ405،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم