مجیب:مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر:Sar-7568
تاریخ اجراء:26 رَبیعُ الاوَّل1443ھ/02 نومبر 2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے
میں کہ میری خالہ
ابھی حیات ہیں، مگر
انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنا کفن تیار
کر لیا ہے اور وصیت
کر رکھی ہے کہ مجھے اِسی کفن میں کفنانا۔ سوال یہ ہے کہ
کیا اُن کا زندہ ہونے کے باوجود
اپنا کفن تیار کر لینا
درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
زندگی میں اپنے لیے کفن تیار کروا لینے میں کوئی حَرَج اور مضائقہ نہیں، بلکہ اگر کوئی کسی متبرک کپڑے، مثلاً: آب ِزم زم سے دُھلا، کعبہ
مشرفہ سے مَسْ شدہ
یا فِضائے مکہ
ومدینہ سے آیا
ہوا کپڑا اِس مقصد کے لیے رکھتا
ہے، تو یہ ایک مستحسن یعنی پسندیدہ
کام ہے، چنانچہ ایک
جلیلُ القدر صحابی رسول رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے یہ فعل ثابت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چادر مبارک
کو بنیت تبرک اپنے
لیے بطور کفن محفوظ کیا تھا اور نبی اکرم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن کے اِس فعل کو ملحوظ فرمانے کے باوجود کوئی
اعتراض نہ فرمایا، لہٰذا
آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سُکوت یعنی
خاموشی اختیار
فرمانا، اُس فعل کے درست اور جائز ہونے کی دلیل ہے۔ علمِ اصولِ حدیث
کی اصطلاح میں اِس سکوت فرمانے اور عدم انکار کو ”حدیث تقریری“ کہا جاتا ہے۔
یہاں ایک چیز ملحوظ رہے کہ بعض اوقات کفن کے لیے رکھے ہوئے متبرک
کپڑے کو بَرْسوں گھر
میں رکھا جاتا ہے، جس
کے سبب وہ کپڑا بوسیدہ
ہو جاتا اور اُس کی رنگت
میں پیلاہٹ پیدا
ہو جاتی ہے، حالانکہ
میت کا کفن صاف ستھرا اور اُجلا ہونا شریعت
کو مطلوب اور مسلمان میت کی کرامت وعزت کے زیادہ لائق ہے، یعنی میت کو کفن
ایسا اُجلا اور صاف دیا جائے
کہ جیسا کپڑا
وہ عید کی نماز کےلیے
زیبِ تَن کرتا تھا۔
لہٰذا اس کیفیت
سے بچنے کے لیے اسے دھولینا
چاہیے۔
بخاری شریف میں ہے:’’عن سھل رضي اللہ عنه:أن امرأة جاءت النبي صلى اللہ عليه وسلم ببردة منسوجة
فيها حاشيتها، أتدرون ما البردة؟ قالوا: الشملة؟ قال: نعم. قالت: نسجتها بيدي فجئت
لأكسوكها، فأخذها النبي صلى اللہ عليه وسلم محتاجا
إليها، فخرج إلينا وإنها إزاره، فحسنها فلان فقال: اكسنيها،
ما أحسنها، قال القوم: ما أحسنت، لبسها النبي صلى اللہ عليه وسلم محتاجا إليها، ثم
سألته وعلمت أنه لا يرد! قال: إني واللہ ما سألته لألبسه، إنما سألته لتكون كفني
قال سهل:فكانت كفنه۔‘‘ ترجمہ: حضرتِ
سَیِّدُناسہل بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ
ایک خاتون نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ
اقدس میں خوبصورت بُنی
ہوئی حاشیہ والی چادر لائی۔ کیا آپ سب
کو معلوم ہے کہ کون سی
چادر تھی؟لوگوں نے
جواب دیا :وہ تہبند ہے۔ کہا:ہاں۔اُس
امام بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ نے بیان کردہ حدیث
کو ذکر کرنے کے لیے باب ہی اِس نام سے باندھا
کہ ” باب من استعدالكفن
في زمن النبي فلم ینکر
علیہ“
یعنی نبی اکرم کے زمانہ مبارکہ میں جس نے کفن تیار
رکھا اور آپ نے اُس پر انکار نہ فرمایا۔
امام بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ کی اِس باب بندی
پر تبصرہ کرتے ہوئے شارِح بخاری، علامہ بدرالدین
عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:’’استفيد من ذلك جواز تحصيل ما لا بد للميت منه
من كفن ونحوه في حال حياته۔‘‘ترجمہ:امام بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ کے اِس
باب باندھنے سے میت کے لیے ضروری اشیاء، مثلاً
کفن وغیرہ کو زندگی میں ہی تیار کرلینے کا جواز
ثابت ہو رہا ہے۔(عمدۃ القاری، جلد08، صفحہ61، مطبوعہ
داراحیاء التراث العربی،
بیروت)
اوپر نقل کی گئی
حدیث مبارک میں اُس چادر
کے طلب گار صحابی کون تھے؟ اُن کی تعیین میں اختلاف ہے۔ دو اقوال
ہیں۔ پہلا قول یہ کہ وہ
حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہ تھے۔ دوسرا قول یہ کہ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہ تھے۔
علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:’’ والذي
ينبغي أنه لا يكره تھیئۃ نحو الكفن
لأن الحاجة إليه تتحقق غالبا۔‘‘ترجمہ: وہ افعال جنہیں
مکروہ نہیں ہونا چاہیے، اُن میں سے
ایک ”زندگی میں کفن تیار کر لینا
بھی ہے“ کیونکہ اِس کی حاجت پڑ جانا تقریباً یقینی ہوتا
ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار ، جلد3،باب صلاۃ الجنازۃ، صفحہ183،
مطبوعہ کوئٹہ)
امام اہلسنت،
امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’ کفن پہلے
سے تیار رکھنے
میں حرج نہیں اور قبر پہلے سے
نہ بنانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا﴿وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ
اَرْضٍ تَمُوْتُ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اور
کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین
میں مرے گا۔‘‘(فتاویٰ
رضویہ، جلد9،صفحہ265،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:’’حدیثِ صحیح میں ہے بعض اجلہ صحابہ نے کہ غالباً سیّدنا
عبدالرحمن بن عوف یا سیّدنا سعدبن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمہیں، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے تہبند اقدس (جو کہ ایک بی بی
نے بہت محنت سے خوبصورت بُن
کر نذر کیا اورحضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کی ضرورت
تھی) مانگا۔حضور
اَجْودالاَجْودین صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عطافرمایا،
صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم نے انہیں ملامت کی کہ اُس
وقت اُس اِزار شریف کے سوا حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس اور تہبند نہ
تھا، اور آپ جانتے ہیں حضور اکرم الکُرَمَا صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کبھی کسی سائل کو رَد نہیں
فرماتے، پھر آپ نے کیوں
مانگ لیا؟ انہوں نے کہا: وﷲ! میں نے استعمال کو نہ لیا ، بلکہ اس لیے کہ اس میں
کفن دیا جاؤں ۔حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن کی اس نیت
پر انکار نہ فرمایا،
آخر اسی میں کفن دیے گئے۔‘‘(فتاویٰ
رضویہ، جلد9،صفحہ112،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
میت کا کفن صاف ستھرا ہونا چاہیے، چنانچہ صدرالشریعہ مفتی محمد امجد
علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’کفن اچھا ہونا چاہيے یعنی
مرد عیدین و
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
تیجے کے چنوں کا مالدار کو کھانا کیسا؟
میت کے غیر ضروری بال کاٹنے کا حکم؟
غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا حکم؟
کیا قبر میں شجرہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر کتنی دیرتک ٹھہرنا چاہیے؟
قبر بیٹھنے کی صورت میں قبر کے اوپر کی تعمیر نو کرسکتے ہیں؟
نماز جنازہ کی تکرار کرناکیسا ہے؟
غسل میت سے پہلے میت کے پاس تلاوت کرنا کیسا؟