مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Fsd-9110
تاریخ اجراء: 23 ربیع الاول 1446 ھ/ 28 ستمبر 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
احناف کے نزدیک نمازِجنازہ میں ثنا،درودِ پاک اوردعاآہستہ آوازمیں پڑھناسنت ہے، بلند آواز سے پڑھناخلافِ سنت ہے۔چنانچہ صحاح ستہ کی معروف کتاب ’’سننِ نسائی‘‘میں ہے کہ حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں:”السنة فی الصلوة علی الجنازة ان یقرأفی التکبیر الاولی....مخافتة ثم یکبرثلثاوالتسلیم عندالآخرة“ترجمہ:نمازِ جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کہنےکے بعدآہستہ آوازسے اذکار پڑھے ، پھربقیہ تین تکبیریں کہنے کے بعدآخری تکبیرکے وقت سلام پھیردے۔(سنن نسائی،کتاب الجنائز،باب الدعاء، جلد1، صفحہ281، مطبوعہ لاھور)
بدائع الصنائع میں ہے :”ولایجھربمایقرأعقیب کل تکبیرة لأنہ ذکر،والسنة فیہ المخافتة“ ترجمہ:نمازِ جنازہ کی تمام تکبیرات کے بعد اَذکار میں جہر نہ کرے،کیونکہ نمازِجنازہ ذكر ہے اور اس میں آہستہ پڑھنا سنت ہے۔(بدائع الصنائع ،جلد2،صفحہ53،مطبوعہ کوئٹہ)
نمازِ جنازہ ، نماز ِمطلقہ نہیں کہ اس میں قراءت کی جائے یا اذکار جہراً پڑھے جائیں ، بلکہ یہ حقیقتاًدعا ہے ، مجازاً نماز ہے ،یعنی طہارت، وضو اور استقبالِ قبلہ کے معاملے میں نماز کی طرح ہے ،جیساکہ اعلیٰ حضرت امامِ اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : ”علماء تصریح فرماتےہیں کہ نماز جنازہ صلوة مطلقاً نہیں اور تحقیق یہ کہ وہ دعائے مطلق و صلوة مطلقہ میں برزخ ہے،:’’کما اشارالیہ البخاری فی صحیحہ واطال فیہ‘‘محمود عینی نے تصریح فرمائی کہ نماز جنازہ پر اطلاقِ صلوٰة مجاز ہے۔صحیح بخاری میں ہے :’’ سماھا صلٰوۃ لیس فیھا رکوع ولاسجود ‘‘(اس کا نام رکھا ایسی نماز جس میں رکوع وسجود نہیں)۔ عمدۃ القاری میں ہے :’’لکن التسمیۃ لیست بطریق الحقیقۃ ولا بطریق الاشتراک ولکن بطریق المجاز ‘‘(لیکن تسمیہ بطور حقیقت نہیں، نہ بطور اشتراک ،بلکہ بطریق مجاز ہے ) ۔“(فتاویٰ رضویہ ، جلد 9 ، صفحہ 362،363 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
اور دعا کی سنّت یہ ہےکہ آہستہ مانگی جائے ،جیساکہ الجوہرۃ النیّرۃ میں ہے:”ولاینبغی ان یجھر بشیء من ذلک لان من سنة الدعاء المخافتة“ترجمہ:اور نمازِ جنازہ کی دعاؤں میں سے کسی کو جہراً پڑھنا مناسب نہیں ،کیونکہ دعا کی سنت یہ ہے کہ آہستہ مانگی جائے۔(الجوھرۃ النیرہ ،کتاب الجنائز،جلد1،صفحہ130،مطبوعہ ملتان)
اسی کو امامِ اہل سنت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بیان فرمایا۔(فتاوی رضویہ ، جلد 7 ، صفحہ 534 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نمازِ جنازہ کے اذکار کو بلند آواز سے پڑھنے پر بھی روایات موجود ہیں ،تو جو روایات اس مسئلہ پر پیش کی جاتی ہیں،ان میں سے کوئی بھی حدیث نہ تو مرفوع ہے اور نہ ہی کسی سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام اذکار ِنمازِ جنازہ جہراً پڑھا کرتے تھے یا آپ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے جہراً پڑھنے کی تعلیم دی،بلکہ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا کا ذاتی عمل پیش کیا جاتا ہے کہ آپ نے ایک موقع پر جہراً فاتحہ وغیرہ پڑھی ، چنانچہ جو روایات پیش کی جاتی ہیں ، وہ درج ذیل ہیں :
(1)”عن طلحة بن عبد اللہ بن عوف، قال: صليت خلف ابن عباس رضی اللہ عنهما على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب قال: ليعلموا أنها سنة“ یعنی حضرت طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا کے پیچھے نمازِ جنازہ ادا کی،تو آپ نے اس میں سورۂ فاتحہ پڑھی ، پھر فرمایا : میں نے یہ اس لیے پڑھی ، تاکہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ یہ بھی طریقہ ہے ۔(صحیح البخاری ، کتاب الجنائز ، جلد 2 ، صفحہ 89 ، مطبوعہ مصر )
جواب:مذکورہ بالاروایت کے الفاظ کو بغور پڑھ لیں، تو واضح ہوجائے گا کہ اس میں جہراً یعنی بلند آواز سے دعائیں وغیرہ پڑھنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ، لہٰذا اس حدیثِ پاک کو جہراً پڑھنے پر بطورِ دلیل پیش کرنا ، ہرگز درست نہیں ۔(ہاں ! نمازِ جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کا ذکر ہے ،اس کا تفصیلی جواب ذیل میں ذکر کیا جائے گا)۔چنانچہ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے :”قوله: (ليعلموا أنها)... ليس في حديث ابن عباس صفة القراءة بالنسبة إلى الجهر والاسرار“ یعنی : حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی حدیث میں جہراً یا سرّاً پڑھنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ، (لہٰذاجہراً پڑھنے پر اس روایت کو دلیل بنانا درست نہیں )۔(عمدۃ القاری ، جلد 8 ، صفحہ 140 ، مطبوعہ بیروت )
(2) سنن كبریٰ وغیرہ کی روایت میں ہے : ”عن سعيد بن أبي سعيد، قال: سمعت ابن عباس: يجهر بفاتحة الكتاب على الجنازة ويقول: إنما فعلت لتعلموا أنها سنة “یعنی حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ جہراً پڑھی، پھر فرمایا کہ میں نے اس لیے جہراً پڑھی تا کہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ فاتحہ پڑھنا سنت ہے ۔(السنن الکبریٰ ،جلد 4 ،صفحہ 63 ، مطبوعہ بیروت )
جواب :مذکورہ بالا روایت میں حضرت ا بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فاتحہ شریف کو جہراً پڑھنے کا ذکر ہے ، لیکن اس کے چند جوابات ہیں :
(۱)آپرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے خاص اس موقع پر فاتحہ شریف کو جہراً پڑھا ، یہ آپ کا معمول و معروف طریقہ نہیں تھا ، اسی وجہ سے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ساتھ خود ہی اس کی وجہ بھی ارشاد فرما دی کہ میں نے آج جہراً اس لیے پڑھا، تاکہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ نمازِ جنازہ میں (معروف دعاؤں کی جگہ بطورِ دعا و ثنا )فاتحہ بھی پڑھی جا سکتی ہے ،یہ بھی ایک سنّت یعنی طریقہ ہے۔
(۲)صحا بہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان امت کے لیے مقتدیٰ اور قابلِ تقلید ہیں، ان حضرات کا لوگوں کو سکھانے کی غرض سے کبھی کبھارغیر منصوص مسئلہ میں عمومی طریقے کے خلاف کچھ کرنا درست ہے ، بلکہ یہ بات نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام سے بھی ثابت ہے کہ آپ بسا اوقات نمازِ ظہر میں دورانِ تلاوت کوئی آیت کچھ بلند آواز سے پڑھ دیتے تھے، تاکہ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو معلوم ہو جائے کہ اس نماز میں کون سی سورت تلاوت کی گئی ہے،لیکن فی زمانہ ہمیں اس چیز کی اجازت نہیں کہ لوگوں کو سکھانے کی غرض سے نمازِ جنازہ یا کسی بھی نماز جس میں اذکارآہستہ پڑھنے کی تعلیم ہے ، اس میں جہر کرنا شروع کر دیں۔چنانچہ عمدۃ القاری میں ہے :”قوله: (ليعلموا أنها) ... وعند البيهقي... يجهر بفاتحة الكتاب في الصلاة على الجنازة، ويقول:إنما فعلت لتعلموا أنها سنة، فقد يستدل به على الجهر بها، وهو أحد الوجهين لأصحاب الشافعی فيما إذا كانت الصلاة عليها ليلا. قال شيخنا زين الدين:والصحيح أنه يسر بها ليلا أيضا وأما النهار فاتفقوا على أنه يسر فيه، قال : ويجاب عن الحديث بأنه أراد بذلك إعلامهم بما يقرأ ليتعلموا ذلك،ولعله جهر ببعضها،كما صح في الحديث أن النبی صلى اللہ عليه وسلم كان يسمعهم الآية أحيانا في صلاة الظهر، وكان مراده ليعرفهم السورة التي كان يقرأ بها في الظهر“یعنی : امام بیہقی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ وغیرہ کی روایت میں جہر کا ذکر موجود ہے ، جن سے کچھ لوگ اذکارِ نمازِ جنازہ کو جہراً پڑھنے پر استدلال کرتے ہیں ، لیکن صحیح یہ ہے کہ اگر دن کے وقت نمازِ جنازہ ادا کی جائے ، تو بالاتفاق اور رات کے وقت ادا کی جائے ، تو صحیح قول کے مطابق اذکارِنمازِ جنازہ سراً ہی پڑھے جائیں گے۔اور جو حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی روایت میں ہے ، تو وہاں دوسروں کی تعلیم مقصود تھی ، جیسا کہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام سے صحیح ثابت ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام بعض اوقات نمازِ ظہر میں کسی آیت کو بلند آواز سے پڑھ دیتے تھے، تاکہ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان جان سکیں کہ کون سی سورت تلاوت فرمائی ہے ۔(عمدۃ القاری ، جلد 8 ، صفحہ 140 ، مطبوعہ بیروت )
اذکارِ نمازِ جنازہ کو آہستہ پڑھنے میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ، جیساکہ نخب الافکار میں ہے : ” لا قراءة فی صلاة الجنازة أصلًا، ولكن لو قرأ على وجه الثناء لا بأس بها...الثالث: فيه إسرار القراءة، قال ابن قدامة: ويسر القراءة والدعاء في صلاة الجنازة ولا نعلم بين أهل العلم فيه خلافًا، روی عن ابن عباس أنه جهر بفاتحة الكتاب، قال أحمد: إنما جهر ليعلمهم “یعنی : نمازِ جنازہ میں تلاوتِ قرآن نہیں ہے ، ہاں دعا و ثنا کی نیت سے فاتحہ پڑھی ،تو کوئی حرج نہیں ، علامہ ابن قدامہ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے ہیں : نمازِ جنازہ میں اذکار آہستہ ہی پڑھے جائیں گے اور اس مسئلہ میں اہل علم کا کوئی اختلاف ہم نہیں جانتے، امام احمد بن حنبل عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے ہیں حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے لوگوں کی تعلیم کے لیے جہراً پڑھا تھا۔(نخب الأفكار ، جلد 7، جلد 372، مطبوعہ وزارۃ الاوقاف ، قطر )
(۳) حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے اس ذاتی عمل اور اس فرمان :’’أنها سنة‘‘سے نمازِ جنازہ میں تلاوتِ فاتحہ کا واجب و ضروری ہونا یا اس میں جہر کا سنّتِ نبوی (عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام) ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا ، کیونکہ اگر نمازِ جنازہ کے اذکار بلند آواز سے پڑھنا ، سنّتِ نبوی (عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام) ہوتا ، تویہ سب صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو معلوم ہوتا ، کیونکہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی موجودگی میں بہت سے جنازے پڑھائے ، لیکن کسی ایک بھی صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے یہ بات صراحتاً اور مرفوعاً مروی نہیں کہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام اذکارِ نمازِ جنازہ جہراً پڑھا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فرمان "أنها سنة " سے مراد سنّتِ نبوی(عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام) نہیں ہے ،جیساکہ مرقاۃ المفاتیح میں ہے :”وليس هذا من قبيل قول الصحابی من السنة كذا فيكون في حكم المرفوع كما توهم ابن حجر فتدبر “یعنی : اور یہ (أنها سنة) "صحابی کا قول سنّت سے ہے "کے قبیل سے نہیں ہے کہ اس بنیاد پر کہا جائے کہ یہ مرفوع کے حکم میں ہے ، جیساکہ اس کے متعلق علامہ ابنِ حجر عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کو یہ وہم ہوا ۔(مرقاة المفاتيح ، جلد 3، صفحہ 1197 ، مطبوعہ بیروت)
(٤)اگر نمازِ جنازہ میں جہراً اذکار پڑھنا سنّت ہوتا ، تو صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے عمل پر حیرانی و تعجب کا اظہار کرتے ہوئےسوال نہ کرتے اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کووضاحت نہ دینی پڑتی ، حالانکہ کئی روایات میں یہ بات مذکور ہے کہ مختلف صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے آپ کو روک کرتعجب کے ساتھ پوچھا کہ آج آپ نے یہ کیا کیا ؟ تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے وضاحت فرمائی کہ آج اس لیے جہر کیا تاکہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ (معروف دعاؤں کی جگہ بطورِ دعا و ثنا )فاتحہ بھی پڑھی جا سکتی ہے،چنانچہ صحیح ابن حبان ،صحیح ابن خزیمہ ، مسند ابو یعلیٰ اور کئی کتبِ احادیث میں ہے،واللفظ للاوّل:”عن طلحة بن عبداللہ بن عوف، قال: صليت خلف ابن عباس على جنازة، فقرأ بفاتحة الكتاب،وجهر حتى أسمعنا، فلما انصرفت أخذت بيده، فسألته عن ذلك،فقال:سنة وحق “یعنی :حضرت طلحہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا کے پیچھے نمازِ جنازہ ادا کی،تو آپ نے جہراً سورۂ فاتحہ پڑھی ، یہاں تک کہ ہمیں اس کی آواز آئی ، تو فارغ ہونے کے بعد میں نے آپ کو روک کر اس کی وجہ پوچھی ، تو فرمایا کہ فاتحہ پڑھنا بھی ایک طریقہ ہے اور یہ بھی درست ہے ۔(صحیح ابن حبان ، النوع الثامن ، جلد 7 ، صفحہ 242 ، مطبوعہ بیروت)
بلکہ بعض روایات میں فاتحہ کے ساتھ سورت کو بھی جہراً پڑھنے کا ذکر ہے ، چنانچہ مسند ابو یعلیٰ میں ہے :”فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة وجهر حتى أسمعنا “ یعنی آپ نے فاتحہ شریف اور اس کے ساتھ ایک سورت بھی جہراً پڑھی ۔(مسند ابو یعلیٰ ، اول مسند ابن عباس ، جلد 5 ، صفحہ 67 ، مطبوعہ دارالمأمون ، دمشق )
ثابت ہوا کہ نمازِ جنازہ میں جہراً اذکار پڑھنا سنّتِ نبوی(عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام)نہیں تھا،بلکہ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا کا ذاتی عمل تھا ، جوایک خاص موقع پر خاص حکمت کے پیشِ نظر عمل میں لایا گیا ، اگر سنّت ہوتا ،تو صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں بھی معروف و مشہور ہوتا ، کیونکہ یہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کا کوئی ایسا عمل نہیں تھا جو لوگوں سے پوشیدہ ہو ۔
(٥)مسند ابو یعلیٰ وغیرہ کی روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ بھی پڑھی اور اس کے ساتھ مزید سورت بھی۔ اگر حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے عمل سے سورہ فاتحہ ثابت ہوتی ہے ،تو پھر سورت پڑھنا بھی ثابت ہوتا ہے ، حالانکہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی روایت کو دلیل بنا کر سورۂ فاتحہ کی تلاوت کو لازم کہنے والے سورت ملانے کو لازم ، بلکہ درست ہی نہیں سمجھتے ۔ثابت ہوا کہ نمازِ جنازہ میں حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے سورۂ فاتحہ اور اس کے بعد سورت وغیرہ بطورِ تلاوت نہیں پڑھی تھی ، بلکہ بطورِ دعا و ثنا پڑھی تھی، کیونکہ نمازِ جنازہ میں تلاوت کی نیت سے فاتحہ پڑھنا مشروع ہی نہیں اور نہ ہی نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام سے ثابت ہے (تفصیلات کتبِ فقہ میں دیکھی جا سکتی ہیں) ،چنانچہ عامہ کتبِ فقہ میں ہے ، واللفظ لشرح مختصر الطحاوی :” روی عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنه أنه قال: لم يوقت لنا على الجنازة قول ولا قراءة “ یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے نمازِ جنازہ میں ہمارے لیے نہ تو کوئی خاص الفاظ لازم قرار دئیے اور نہ ہی تلاوتِ قرآن کو لازم فرمایا ۔(شرح مختصر للجصاص ، جلد 2 ، صفحہ 214، مطبوعہ دار البشائر الاسلامیہ )
اور فتح القدیر ، بحرالرائق وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے ،واللفظ للبحر :”لم تثبت عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم “ترجمہ : نمازِ جنازہ میں تلاوتِ قرآن نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام سے ثابت نہیں ۔( بحر الرائق ، جلد 2 ، صفحہ 197 ، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی )
(3)اور ایک یہ روایت بطورِ دلیل پیش کی جاتی ہے:”عوف بن مالك،يقول:صلى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم على جنازة، فحفظت من دعائه وهو يقول:اللهم،اغفر له وارحمه... “یعنی حضرت عوف بن مالک رَضِیَ اللہ عَنْہ فرماتے ہیں کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی ، تو میں نے وہ دعایاد کر لی ،دعا یہ ہے: اے اللہ ! اسےبخش دے ، اس پر رحم فرما... ..الخ۔(صحیح المسلم ، جلد 2 ،صفحہ 662 ،مطبوعہ بیروت)
جواب :حضرت عوف بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نمازِ جنازہ میں بلند آواز سے اَذکار پڑھنا سنت ہے،بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح بعض اوقات کوئی شخص آہستہ آواز سے پڑھ رہا ہوتا ہے،لیکن قریب کھڑے کچھ افراد کو آواز پہنچ جاتی ہے،ایسے ہی یہاں ہوا ہوگا۔
اور اگر سوال ہو کہ حضرت عوف بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے ان الفاظ" فحفظت من دعائه "(یعنی میں نے یہ دعا یاد کر لی ) کا کیا جوا ب ہے ؟ تو اس کے متعلق شارحین فرماتے ہیں کہ اس جملے کی یہ مراد نہیں کہ آپ نے حضور عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کے جہراً پڑھنے کی وجہ سے دورانِ نماز سن کر یاد کر لی ، بلکہ نماز کے بعد آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ نے نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام سے یہ دعائیہ کلمات یاد کیے تھے۔
اور اگر یہ مان بھی لیاجائے کہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے جہراً ہی دعا مانگی تھی ، تو اس کا جواب وہی ہے جو پہلے عرض کیا گیا کہ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی تعلیم کے لیے نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کبھی کبھار کچھ جہر بھی فرما دیا کرتے تھے ، لیکن اس سے جہر کا سنّت ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ چنانچہ جمہور کا متفقہ مؤقف بیان کرتے ہوئے امام شرف الدین نَوَوِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:676 ھ/ 1277ء) لکھتے ہیں:”قوله (صلى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم على جنازة فحفظت من دعائه إلى آخره) فيه إثبات الدعاء فی صلاة الجنازة ... وقد اتفق أصحابنا على أنه إن صلى عليها بالنهار أسر بالقراءة وإن صلى بالليل ففيه وجهان الصحيح الذي عليه الجمهور يسر والثاني يجهر وأما الدعاء فيسر به بلا خلاف وحينئذ يتأول هذا الحديث على أن قوله حفظت من دعائه أی علمنيه “ ترجمہ : اس روایت سے نمازِ جنازہ میں دعا پڑھنے کا ثبوت ہوتا ہے اور ہمارے اصحاب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر دن میں پڑھی جائے ، تو سراً اذکار پڑھے جائیں اور اگر رات کو پڑھی جائے ، تو اس میں دو اقوال ہیں جن میں سے صحیح وہ ہے جس پر جمہور ہیں کہ اس میں بھی سری پڑھی جائے، اور دوسرا قول ہے کہ جہری پڑھی جائے۔ البتہ جو دعا ہے، تو اسے بلااختلاف سری پڑھا جائے۔ اس صورت میں اس حدیث کی یہ تاویل کی جائے گی کہ: ”حفظت من دعائه “ (میں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام سے یہ دعا یاد کرلی) یعنی آپ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے نماز کے بعد مجھے سکھائی اور میں نے یاد کرلی۔(شرح النووی علی المسلم ، جلد 7 ، صفحہ 30 ، مطبوعہ بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
تیجے کے چنوں کا مالدار کو کھانا کیسا؟
میت کے غیر ضروری بال کاٹنے کا حکم؟
غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا حکم؟
کیا قبر میں شجرہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر کتنی دیرتک ٹھہرنا چاہیے؟
قبر بیٹھنے کی صورت میں قبر کے اوپر کی تعمیر نو کرسکتے ہیں؟
نماز جنازہ کی تکرار کرناکیسا ہے؟
غسل میت سے پہلے میت کے پاس تلاوت کرنا کیسا؟