Kya Mustamal Pani Se Mayyat Ko Ghusal Diya Ja Sakta Hai?

کیا مستعمل پانی سے میت کو غسل دیا جاسکتا ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13222

تاریخ اجراء:27جمادی الثانی1445ھ/10جنوری2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا مستعمل پانی سے میت کو غسل دیا جاسکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی نہیں! مستعمل پانی سے میت کو غسل نہیں دیا جاسکتا کہ  میت کا غسل نجاستِ حکمیہ کو دور کرنے کے لیے ہوتا ہے اور مستعمل پانی نجاستِ حکمیہ کو پاک نہیں کرتا۔

   غسلِ میت نجاست حکمیہ دُور کرنے کے ليے ہے۔جیسا کہ فتاویٰ شامی، بحر الرائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”والنظم للآخر“ فی فتاوی الظھیریۃ: وغسالۃ المیت نجسۃ کذا اطلق محمد فی الاصل، و الاصح انہ اذا لم یکن علیٰ بدنہ نجاسۃ یصیر الماء مستعملاً ولا یکون نجساً الا ان محمداً انما اطلق نجاسة الماء لان غسالتہ  لا تخلو عن النجاسۃ غالباً “یعنی فتاویٰ ظہیریہ میں ہے کہ  میت کا غسالہ ناپاک ہے جیسا کہ امام محمد علیہ الرحمہ نے اصل میں اسے مطلق ذکر کیا ۔  اصح یہ ہے کہ جب میت کے بدن پر کوئی نجاست نہ ہو تو اس کے غسل کا پانی مستعمل ہوگا ،  نجس نہ ہوگا، مگر امام محمدعلیہ الرحمہ کا اس پانی کو مطلق نجس ذکر کرنا اس وجہ سے ہے کہ  میت کا غسالہ غالب طور پر نجاست سے خالی نہیں ہوتا۔  (البحر الرائق، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 97، دار الكتاب الإسلامي)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:”میت کے بارے میں علماء مختلف ہیں،  جمہور کے نزدیک موت نجاستِ حقیقیہ ہے۔  اس تقدیر پر تو وہ پانی کہ غسلِ میت میں صرف ہوا مائے مستعمل نہیں بلکہ ناپاک ہے اور بعض کے نزدیک نجاستِ حکمیہ ہے ، بحر الرائق وغیرہ میں  اسی کو اصح کہا۔  اس تقدیر پر وہ پانی بھی مائے مستعمل ہے ۔(فتاوٰی رضویہ، ج 02، ص 45، رضا فاؤنڈیشن،  لاہور)

   بہار شریعت میں ہے:”راجح یہ ہے کہ میّت کا غسل نجاست حکمیہ دُور کرنے کے ليے ہے تو مستعمل پانی کی چھینٹیں پڑیں اور مستعمل پانی نجس نہیں، جس طرح زندوں کے وضو و غسل کا پانی۔“ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 817، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مستعمل پانی سے نجاستِ حکمیہ کو دور نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ مختصر القدوري وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے: و الماء المستعمل لايجوز استعماله في طهارة الأحداث۔“یعنی  مائے مستعمل کا استعمال نجاستِ حکمیہ کو پاک کرنے کے لیے کافی نہیں۔ (مختصر القدوري، کتاب الطھارۃ، ص 13، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں مستعمل پانی کے حکم سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:” خود پاک ہے اور نجاست حکمیہ سے تطہیر نہیں کرسکتا ۔(فتاوٰی رضویہ، ج02، ص 113، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   وقار الفتاوٰی  میں ہے:” ماء مستعمل پاک تو ہے لیکن پاک کر نہیں سکتا یعنی دوسری نجاستِ حکمیہ کو پاک نہیں کرے گا۔ “ (وقار الفتاوٰی  ، ج02، ص08، بزم وقار الدین)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم