Kya Mayyat Islal e Sawab Karne wale Ko Janti Hai ?

کیا میت ایصال ثواب کرنے والے کو جانتی ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0231

تاریخ اجراء: 28ربیع الثانی1445ھ/13 نومبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہم نے یہ سُن رکھا تھا کہ جب مسلمان میت کے لیے اس كے گھر والے یا دوسرےلوگ دُعا و استغفار،صدقہ و خیرات اور قراءتِ قرآن وغیرہ کی صورت میں ایصال ثواب کرتے ہیں ،تو اس کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ کس نے اس کے لیے یہ ایصال ِثواب کیا ہے،جبکہ ایک شخص  کا کہنا ہے کہ ایصالِ ثواب تو درست ہے، لیکن اس بات کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے کہ میت کو بھی علم ہوجاتا ہے، پوچھنا یہ ہے کہ یہ بات درست ہے یا نہیں؟اور اگر ہے، تو کہاں سے ثابت ہے ؟برائے کرم تشفی بخش جواب عطا فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب مسلمان میت کے لیےاس کے گھر والے یا دوسرے مسلمان   دُعا و استغفار ، صدقہ و خیرات اور قراءتِ قرآن وغیرہ کرکے ایصال ثواب کرتے ہیں ،تو  وہ مسلمان میت اس ایصالِ ثواب کرنے والے کو جانتی پہچانتی ہے،یہ بات متعدد روایات، اولیائے کرام علیھم الرحمۃ اجمعین کے کشف و خواب والے کئی واقعات اورمعتبر علمائے کرام علیھم الرحمۃ  کی تصریحات سے ثابت ہے، لہٰذا اس کو ”بے اصل قرار دینا“ خود بے اصل اور باطل ہے۔

   جب مسلمان میت کے لیےاس کے گھر والے یا دوسرے مسلمان  دُعا و استغفار کرتے ہیں، تو میت کو ان کا علم ہوجاتا ہے،اس کے متعلق سنن ابن ماجہ،مسند امام احمد اور معجم اوسط  میں ہے،واللفظ للسنن:” عن أبي هريرة قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: إن الرجل لترفع درجته في الجنة فيقول: أنى هذا؟ فيقال: باستغفار ولدك لك “ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :بے شک بندہ مومن  کے درجے کو جنت میں بلند کیا جاتا ہے،تو وہ عرض کرتا ہے ،یہ درجہ مجھے کیسے ملا؟تو ارشاد ہوتا ہے :تیرے لیے تیرے بچے کے استغفار کرنے کی وجہ سے۔(سنن ابن ماجہ، ج02،ص 1207،دار احیاء الکتب العربیہ)

(مسند احمد ، ج16،ص 357،مؤسسۃ الرسالہ)(المعجم الاوسط،ج02،ص 251،دار الحرمین)

   سنن بیہقی و مسند البزار میں ہے،واللفظ للبیھقی:”عن أبي هريرة رضی اللہ عنه عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: ” إن اللہ ليرفع العبد الدرجة فيقول: رب أنى لي هذه الدرجة، فيقول: بدعاء ولدك لك “ ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں ،حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ بندے کے درجے کو بلند فرماتا ہے، تو وہ عرض کرتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے یہ درجہ کیسے حاصل ہوا؟تو اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : تیرے لیے تیرے بچے کی دعا کی وجہ سے ۔

 (السنن الکبرٰی للبیھقی،ج07،ص 126،دار الکتب العلمیہ،بیروت) (مسند البزار،ج16،ص 08،مکتبۃ العلوم و الحکم ،مدینۃ منورہ)

   مرقاۃ المفاتیح میں پہلی روایت کے تحت ہے :”حصل باستغفار (ولدك لك) : الولد يطلق على الذكر والأنثى، والمراد به المؤمن“ترجمہ: تیرے لیے تیری اولاد کے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے یہ درجہ حاصل ہوا ،ولد کا اطلاق مذکر  و مؤنث سب پر ہوتا ہے اور اس سے مراد مؤمن اولاد ہے ۔(مشکا ۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح،باب الاستغفار ،ج04،ص 1632،دار الفکر،بیروت)

   التذکرۃ  للامام القرطبی میں ہے:”وقال بشار بن غالب: رأيت رابعة العدوية ـ يعني العابدة ـ في المنام، وكنت كثير الدعاء لھا.فقالت لي: يا بشار هديتك تأتينا في أطباق من نور، عليها مناديل الحرير، وهكذا يا بشار دعاء المؤمنين الأحياء إذا دعوا لإخوانهم الموتى فاستجيب لهم يقال: هذه هدية فلان إليك“ترجمہ:اور بشار بن غالب کہتے ہیں:میں نے حضرت رابعہ عدویہ عابدہ کو خواب میں دیکھا اور میں ان کے لیے بہت زیادہ دعا کیا کرتا تھا ،تو انہوں نے مجھے فرمایا:اے بشار! تیرا تحفہ ہمارے پاس نورانی طباق میں آتا ہے، جو ریشمی رومالوں سے ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں اور اے بشار! اسی طرح جب  زندہ مسلمان اپنے مردہ بھائیوں کے لیے دعا کریں، تو ان کی دعا کا بھی یہی حال ہے کہ اس کو ان کے لیے قبول کیا جاتا ہے اور کہاجاتا ہے :یہ فلاں کا تیرے لیے تحفہ ہے ۔(التذکرۃ للقرطبی، ج01،ص 299،مکتبہ دار المنھاج)

   مسلمان میت، صدقہ و خیرات کرکے ایصال ثواب کرنے والے کو بھی جانتی ہے،اس کے متعلق معجم اوسط میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،حضور پاک صلی اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :” ما من أهل بيت يموت منهم ميت فيتصدقون عنه بعد موته إلا أهداها إليه جبريل عليه السلام على طبق من نور، ثم يقف على شفير القبر، فيقول: يا صاحب القبر العميق، هذه هدية أهداها إليك أهلك فاقبلها ، فيفرح بها ويستبشر، ويحزن جيرانه الذين لا يهدى إليهم بشيء“ترجمہ:جب کسی گھر والوں کے یہاں کسی  کا انتقال ہوجاتا ہے اور وہ اس کے انتقال کے بعد اس کی طرف سے صدقہ کرتے ہیں، تو جبریل امین علیہ السلام اس صدقہ کو ایک نورانی  طباق میں رکھ کر بطورِ ہدیہ اس کو پیش کرتے ہیں، پھر اس کی قبر کے کنارے کھڑے ہوکر کہتے ہیں :اے گہری قبر والے! یہ وہ تحفہ ہے جو تیری طرف تیرے گھر والوں نے بھیجا ہے،  تُو اسے قبول کر ! تو وہ اس کی وجہ سے خوش ہوتا اور خوشیاں مناتا ہے اور اس کے پڑوسی قبر والے جن تک کوئی چیز بطورِ تحفہ نہیں پہنچتی ،وہ غمگین ہوجاتےہیں ۔(المعجم الاوسط،ج06،ص 314،دار الحرمین)

   شرح الصدور للامام السیوطی میں ہے :” رأى بعض الصالحين أباه في النوم فقال له يا بني لولا لم قطعتم هديتكم عنا قال يا أبت وهل تعرف الأموات هدية الأحياء قال يا بني لولا الأحياء لهلكت الأموات“ ترجمہ:ایک بندہ صالح نے اپنے والد کو خواب میں دیکھا، تو ان سے ان کے والد نے کہا کہ اے میرے بیٹے!  کاش کہ تم لوگ اپنے تحفوں کو ہم سے نہ روکتے ! تو اس بندہ صالح نے کہا کہ اے میرے والد!کیا مُردوں کو زندوں کے تحفوں کی پہچان ہوتی ہے ؟تو والد نے کہا اے میرے بیٹے! اگر زندہ لوگ نہ ہوتے،تو مردے ہلاک ہوجاتے ۔(شرح الصدوربشرح حال الموتٰی و القبور،ج01،ص 298،دار المعرفہ،لبنان)

   جب مسلمان میت کے لیے اس کے گھر والے یا دوسرے لوگ قرآن پڑھ کر ایصال ثواب  کرتے ہیں ، تو میت کو اس کا بھی  علم ہوجاتا ہے،اس کے متعلق شرح الصدور میں بحوالہ تاریخ امام ابن نجار، حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کا قول منقول ہے :”دخلت المقبرة ليلة الجمعة فإذا أنا بنور مشرق فيها فقلت لا إله إلا اللہ نرى أن اللہ عز وجل قد غفر لأهل المقابر فإذا أنا بهاتف يهتف من البعد وهو يقول يا مالك بن دينار هذه هدية المؤمنين إلى إخوانهم من أهل المقابر قلت بالذي أنطقك إلا أخبرتني ما هو قال: رجل من المؤمنين قام في ھذه الليلة فأسبغ الوضوء وصلى ركعتين وقرأ فيهما فاتحة الكتاب و ﴿ قل يا أيها الكافرون﴾ و ﴿قل هو الله أحد﴾ وقال اللهم إني قد وهبت ثوابها لأهل المقابر من المؤمنين فأدخل اللہ علينا الضياء والنور والفسحة والسرور في المشرق والمغرب “ترجمہ:میں جمعہ کی رات ایک قبرستان میں داخل ہوا ،تو میں نے اچانک اس میں ایک چمکتا ہوا نور دیکھا، تو میں نے  لا الہ الا اللہ  پڑھ کر کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ اللہ عزوجل نے قبرستان والوں کی مغفرت فرمادی ہے ! تو اچانک ہاتفِ غیبی کی دور سے آواز آئی کہ اے مالک بن دینار! یہ مسلمانوں کا اپنے قبرستان میں مدفون بھائیوں کے لیے تحفہ ہے ،تو میں نے کہا کہ تم کو اس ذات کی قسم جس نے تمہیں قوت گویائی عطا فرمائی ہے، مجھے اس کے بارے میں بتاؤکہ یہ کیا ہے؟تو اس نے کہا کہ ایک مسلمان مرد اس رات کھڑا ہوا، تو اس نے کامل وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھی جس میں اس نے سورہ فاتحہ ،سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھی اور یہ عرض کی کہ اے اللہ! میں نے اس کا ثواب قبرستان میں مدفون مومنوں کو ہبہ کیا ،تو اللہ نے ہم پر مشرق و مغرب میں  چمک،روشنی،وسعت اور خوشی داخل فرمادی۔          (شرح الصدور ،ج01،ص 298،دار المعرفہ)

   اسی میں حضرت سیدنا حماد مکی رحمۃ اللہ علیہ کا قول کچھ اس طرح منقول ہے :”خرجت ليلة إلى مقابر مكة فوضعت رأسي على قبر فنمت فرأيت أهل المقابر حلقة حلقة فقلت قامت القيامة قالوا لا ولكن رجل من إخواننا قرأ﴿ قل هو الله أحد ﴾ وجعل ثوابها لنا فنحن نقتسمه منذ سنة“ترجمہ:میں ایک رات مکہ مکرمہ کے قبرستان میں آیا، تو میں نے اپنا سر ایک قبر پر رکھا اور سوگیا، تو میں نے خواب میں قبرستان والوں کو حلقہ در حلقہ دیکھا، تو میں نے کہا کہ کیا قیامت قائم ہوگئی؟ انہوں نے کہا نہیں،لیکن ہمارے ایک مسلمان بھائی نے سورۃ الاخلاص پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخشا ہے تو ہم اسی کو  ایک سال سےتقسیم کررہے ہیں۔ (شرح الصدور ،ج01،ص 304،دار المعرفہ)

   علامہ یافعی رحمۃ اللہ علیہ نے روض الریاحین میں ایک واقعہ ذکر فرمایا کہ ایک بندہ صالح نے کسی نیک لڑکے کے باپ کو خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ جس طرح دوسرے قبر والے صدقہ،دعا اور قرآن کی قراءت کا ثواب جمع کرتے ہیں ، تم کیوں نہیں کرتے؟تو اس نے جواب دیا کہ مجھے اس کی حاجت نہیں ،بندہ صالح نے کہا :ایسا کیوں؟تو اس نے کہا : ”بختمۃ یقرؤھا و یھدیھا الی ولدی فی کل یوم و لیلۃ“ترجمہ:اس ختم قرآن کی وجہ سے جو میرا بیٹا روز پڑھتا ہے اور اس کا ثواب مجھے ہدیہ کردیتا ہے ۔(روض الریاحین،ص188،مکتبۃ زھران)

   امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  علیہ الرحمۃ کی تصریح:

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال کیا گیا کہ’’ مسلمان میت کو جو درود شریف ،قراءت قرآن،صدقہ و خیرات کا ثواب ایصال کیا جاتا ہے، تو کیا اس کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کو فلاں شخص یا عزیز نے بھیجا ہے؟‘‘

   تو جواباً ارشاد فرمایا:”مسلمان میت کوجو ثواب پہنچایا جائے ،اسے پہنچتا ہے اور وہ اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے حیات میں تحفہ بھیجنے سے،اسے معلوم ہوتا ہے کہ میرے فلاں عزیزیا دوست یا مسلمان نے بھیجا ہے۔یہ سب مضامین احادیث میں وارد ہیں ،بینھا الامام الجلیل الجلال السیوطی فی شرح الصدور‘‘یعنی:ان مضامین کو امام جلیل جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے شرح الصدور میں ذکر فرمایا ہے۔“(فتاوٰی رضویہ،ج09،ص 600،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم