Namaz e Janaza Ke Liye Kitne Afrad Hona Zaroori Hai?

 

نماز جنازہ کے لیے کتنے افراد ہونا ضروری ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13445

تاریخ اجراء:15محرم الحرام1446 ھ/22جولائی  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا فقط تین بندوں کے ساتھ بھی نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے؟ یا پھر سات افراد کا ہونا ضروری ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے ، کسی ایک مسلمان نے بھی ادا کرلی تو فرض ادا ہوجائے گا اور باقی سب افراد برئ الذمہ ہوجائیں گے، لہذا اس کے لیے کسی مخصوص تعداد مثلاً تین یا سات افراد کا ہونا یا پھر جماعت کے ساتھ اس نماز کو ادا کرنا  شرط نہیں ہے۔

   البتہ اتنا ضرور ہے کہ کثیر تعداد کا جماعت کے ساتھ نمازِ جنازہ ادا کرنا شرعاً محبوب ہے اور  اس کی فضیلت احادیثِ مبارکہ میں بیان کی گئی ہے اور مسلمانوں کو اس پر ابھارا گیا ہے، جیسا کہ  بعض روایات میں ہے کہ جس مسلمان میت پر چالیس (40) افراد جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اور اس کے حق میں سفارش کریں تو میت کے حق میں ان کی سفارش قبول کی جائے گی، جبکہ بعض روایات میں یہ تعداد سو (100) بھی بیان ہوئی ہے۔ یونہی بعض احادیثِ مبارکہ میں تعداد کے بجائے صفوں  کا ذکر موجود ہے کہ جس مسلمان میت پر تین صفوں کے ساتھ نمازِ جنازہ ادا کی جائے تو اللہ عزوجل اُس مسلمان میت پر جنت کو واجب فرمادیتا ہے۔

   چنانچہ سننِ ابی داؤد کی حدیثِ پاک  میں ہے:”ما من مسلم يموت فيصلى عليه ثلاثة صفوف من المسلمين إلا أوجب۔“ یعنی جس مسلمان میت پر مسلمانوں کی تین صفیں نماز جنازہ پڑھیں گی ، اللہ عزوجل اُس میت کے لیے جنت واجب فرمادیتا ہے۔(سنن أبي داود،  باب فی الصفوف علی الجنازۃ،ج03،ص202، المکتبۃ العصریۃ، بيروت)

   مذکورہ بالا حدیثِ مبارک کے تحت مرآۃ المناجیح میں ہے: یہ حدیث بہت امید افزاءہے کیونکہ یہاں صفوں کی حد بیان فرمائی گئی ۔ اگر دو  دو آدمیوں کی صفیں بھی نماز جنازہ میں ہو جائیں تب بھی میت کی بخشش کی قوی امید ہے۔یہ سب اس امت مرحومہ پرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ سے رب کی رحمت ہے،رب کی رحمت بہانہ چاہتی ہے ، قیمت نہیں مانگتی۔“ (مرآۃ المناجیح، کتاب الجنائز،ج02،ص484، نعیمی کتب خانہ)

   مسلمان میت پر چالیس (40) افراد نماز ادا کریں اور میت کے حق میں سفارش کریں تو ان کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔ جیسا کہ  صحیح مسلم شریف کی حدیثِ مبارک ہے:”ما من رجل مسلم يموت فيقوم على جنازته أربعون رجلا لا يشركون بالله شيئا إلا شفعهم الله فيه “یعنی کوئی ایسا مسلمان مرد نہیں ہے کہ جو انتقال کرجائے اور اُس کی نمازِ جنازہ میں چالیس ایسےمسلمان شریک ہوں کہ جو اللہ عزوجل کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں، مگر یہ کہ اللہ عزوجل اُس میت کے حق میں اُن لوگوں کی سفارش کو قبول فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم ، کتاب الجنائز، ج 02، ص 655، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

   صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری روایت میں سو (100) افراد کا بھی ذکر ہے۔ چنانچہ حدیثِ مبارک کے الفاظ یہ ہیں:”ما من ميت تصلي عليه أمة من المسلمين يبلغون مائة كلهم يشفعون له إلا شفعوا فيه “یعنی کوئی مسلمان میت ایسی نہیں کہ جس پر سو مسلمانوں کی جماعت نماز ادا کرے اور وہ سب اُس میت کے حق میں سفارش کریں مگر یہ کہ اُن لوگوں کی سفارش اس میت کے حق میں قبول کی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم ، کتاب الجنائز، ج 02، ص 654، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

   مذکورہ بالا حدیثِ مبارک کے تحت مرآۃ المناجیح میں ہے:”یہ حدیث گزشتہ چالیس کی روایت کے خلاف نہیں۔ہوسکتا ہے کہ اولًا سو کی قید ہو پھر رب نے اپنی رحمت وسیع فرما دی ہو اور چالیس کی نماز پربھی بخشش کا وعدہ فرمالیا ہو۔“ (مرآۃ المناجیح، کتاب الجنائز،ج02،ص474، نعیمی کتب خانہ)

   نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ ہے، ایک فرد کے ادا کرنے سے بھی ادا ہوجائے گی۔ چنانچہ فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”الصلاة على الجنازة فرض كفاية إذا قام به البعض واحدا كان أو جماعة ذكرا كان أو أنثى سقط عن الباقين وإذا ترك الكل أثموا ، هكذا في التتارخانية۔“ یعنی نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ ہے اگر بعض افراد نے نمازِ جنازہ قائم کرلی تو بقیہ سے وہ فرض ساقط ہوگیا، نماز جنازہ ادا کرنے والا ایک ہو یا مکمل جماعت ، مرد ہو یا عورت ۔ اگر کسی ایک نے بھی ادا نہ کی تو سارے ہی گنہگار ہوں گے، اسی طرح تتارخانیہ میں مذکور ہے۔(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ،ج01،ص162،مطبوعہ پشاور)

   بہارِ شریعت میں ہے:” نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے کہ ایک نے بھی پڑھ لی تو سب بری الذمہ ہوگئے، ورنہ جس جس کو خبر پہنچی تھی اور نہ پڑھی گنہگار ہوا۔ اسکی فرضیت کا جو انکار کرے کافر ہے۔  اس کے ليے جماعت شرط نہیں، ایک شخص بھی پڑھ لے فرض ادا ہوگیا۔ (بہارِشریعت،ج01،حصہ04،ص825، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم