Aurat Ki Qabar Mard Ki Qabar Se Zyada Gehri Hone Ki Haqiqat Kya Hai?

عورت کی قبر مرد کی قبر سے زیادہ گہری ہونے کی حقیقت کیا ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13398

تاریخ اجراء:01ذی الحجۃ الحرام1445 ھ/08 جون  2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ ہمارے یہاں یہ بات مشہور ہے کہ عورت کی قبر مرد کی قبر سے زیادہ گہری ہو، کیا واقعی یہ بات درست ہے یا پھریہ  فقط رواج ہی ہے؟ شرعاً قبر کی کتنی گہرائی ہونی چاہیے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت اور مرد کی قبر میں گہرائی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں، میت مردکی  ہو یا عورت کی، بہر صورت قبر کی گہرائی کم از کم نصف قد برابر ہو اور متوسط درجہ یہ ہے کہ سینہ تک ہو۔ البتہ  بہتر یہ ہے کہ قبر کی گہرائی بھی میت کے پورے قد کے برابر ہو۔

   قبر کی گہرائی سے متعلق  تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”( وحفر قبره ) في غير دار (مقدار نصف قامة ) فإن زاد فحسن۔یعنی قبر کو گھر سے باہر (یعنی قبرستان و غیرہ میں ) نصف قد کے برابر کھودا جائے، اور اگر زیادہ ہو تو بہتر ہے۔

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت فتاوٰی شامی میں ہے:”قوله ( مقدار نصف قامة الخ ) أو إلى حد الصدر وإن زاد إلى مقدار قامة فهو أحسن كما في الذخيرة، فعلم أن الأدنى نصف القامة والأعلى القامة، وما بينهما شرح المنية، وهذا حد العمق، والمقصود منه المبالغة في منع الرائحة ونبش السباع۔“ ترجمہ: ”ماتن کا قول ( نصف قد کی برابر الخ) یا سینے تک اور اگر قد کے برابر ہو جائے تو بہتر ہے جیسا کہ ذخیرہ میں ہے تو اس سے قبر کی ادنی مقدار نصف قد،  اور زیادہ سے زیادہ مقدار قد برابر، اور ان کے درمیانی مقدار (یعنی سینے کے برابر ) معلوم ہو گئی۔ "شرح منیہ "۔ یہ گہرائی کی حد ہے ، اس کا مقصد بور و کنے اور درندوں کے اکھاڑ نے سے بچانے میں مبالغہ ہے۔ “(رد المحتار مع الدر المختار ،کتاب الصلاۃ، ج 03، ص 164-163، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتح باب العنایۃ میں ہے:ويحفر القبر نصف القامة، أو إلى الصدر، وإن زيد كان حسنا، لأنه أبلغ في منع الرائحة، ودفع السباع ۔یعنی قبر کو نصف قد کے برابر یا پھر سینے تک  کھودا جائے اور اگر اس پر زیادتی کی جائے تو یہ اچھا ہے، کیونکہ اس میں بور و کنے اور درندوں کے اکھاڑ نے سے بچانے میں مبالغہ ہے۔(فتح باب العناية بشرح النُّقاية، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 452، دار الأرقم، بيروت)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے: شریعت مطہرہ نے قبر کا گہرا ہونا اس واسطے رکھا ہے کہ احیاء کی صحت کو ضرر نہ پہنچے۔ در مختار میں ہے : " حفر قبرہ مقدار نصف قامة فان زاد فحسن " ۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج 09، ص 382، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:” قبر کی لمبائی میّت کے قد برابر ہو اور چوڑائی آدھے قد کی اور گہرائی کم سے کم نصف قد کی اور بہتر یہ کہ گہرائی بھی قد برابر ہو اور متوسط درجہ یہ کہ سینہ تک ہو۔ “(بہار شریعت، ج01، ص843، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مفتی امجد علی اعظمی  علیہ الرحمہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”عورت اور مرد کی قبر میں کچھ فرق نہیں کہ عورت کی زیادہ گہری ہو اور مرد کی کم۔ قبر کا ادنی درجہ نصف قد ہے اور اوسط درجہ سینہ تک اور سب سے بہتر یہ کہ قد برابر ہو۔ ریتلی زمین میں جس میں سے جانور مردے کو نکال لیتے ہیں اگر ممکن ہو تو قد برابر کھودیں کہ مسلم کی لاش بے حرمتی سے محفوظ رہے۔ قد برابر ہونا تو ویسے ہی افضل ہے۔ اور یہاں تو بدرجہ اولی اس کا لحاظ چاہئے۔ “(فتاوٰی  امجدیہ، ج01، ص 365، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم