Imam e Masjid Ka Kisi Mayyat Ko Ghusal Dena Kaisa ?

امام مسجد کا کسی میت کو غسل دینا کیسا ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7663

تاریخ اجراء: 18جمادی الاولیٰ 1443 ھ / 23 دسمبر 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ امام مسجد کسی میت کو غسل دے سکتا ہے اور اگر دے ، تو اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   میت کو غسل دینا ایسا عمل نہیں کہ اس کی وجہ سے امامت میں کراہت آئے ، حدیثِ پاک میں اللہ پاک کی رضا کے لیے میت کو غسل و کفن دینے والے کے متعلق فرمایا کہ وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوجاتا ہے ، جیسےاپنے پیدا ہونے کے دن گناہوں سے پاک و صاف تھا ، بلکہ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ میت کا قریبی رشتہ دار موجود نہ ہو یا اچھی طرح غسل دینا ، نا جانتا ہو ، تو بہتر یہ ہے کہ نیک پرہیز گار مسلمان سے غسل دلوایا جائے ، لہٰذا امام صاحب کا میّت کو غسل دینا بھی جائز اورایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا بھی ، بلا کراہت جائز ہے ۔

   میّت کو غسل دینے کی فضیلت کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے : عن علي، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم من غسل ميتا، وكفنه، وحنطه، وحمله، وصلى عليه، ولم يفش عليه ما رأى، خرج من خطيئته، مثل يوم ولدته أمه ترجمہ:حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو کسی میّت کو غسل دے ، کفن پہنائے، خوشبو لگائے اور اس کو اٹھائے، نماز جنازہ پڑھے اور کوئی عیب وغیرہ دیکھے ،تو اس کو ظاہر نہ کرے، وہ اپنی خطاؤں سے ایسے پاک صاف ہو جاتا ہے، جیسے وہ اپنی پیدائش کے دن خطاؤں سے پاک صاف تھا۔ ( سنن ابن ماجہ ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی غسل المیت، صفحہ 216 ، مطبوعہ لاھور )

   ایک اور حدیثِ پاک میں ہے : عن علي بن رباح اللخمي عن أبي رافع قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم من غسل ميتًا فكتم عليه غفر له أربعين مرةً، و من كفن ميتًا كساه اللہ من السندس و استبرق الجنة، و من حفر لميت قبرًا فأجنه فيه أجرى له من الأجر كأجر مسكن أسكنه إلى يوم القيامۃ ، هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ولم يخرجاه ترجمہ : حضرت علی بن رباح رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ، حضرت ابو رافع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس نے میت کو غسل دیا اور اس کے عیوب کی پردہ پوشی کی اس کی چالیس بار مغفرت کی جائے گی، جس نے میت کو کفن پہنایا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے (دوقسم کے ریشم)سندس و استبرق کا لباس پہنائے گا اور جس نے میت کے لیے قبر کھودی اس کے لیے قیامت تک ایسا ثواب لکھا جائے گا، جیسے گھر بنا کر اس میں اُسے ٹھہرایا ہو ۔ یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے ، لیکن انہوں نے اسے اپنی کتاب میں بیان نہیں کیا ۔(المستدرك علی الصحیحین للحاکم، کتاب الجنائز، جلد 1 ، صفحہ 505 ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت)

   میّت کا قریبی رشتہ دار نہ ہو ،تو امام وغیرہ نیک پرہیز گار شخص کا غسل دینا بہتر ہے ، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں: والأولیٰ کونہ أقرب الناس الیہ، فان لم یحسن الغسل فأھل الأمانة والورع ترجمہ : بہتر یہ ہے کہ میت کا سب سے قریبی رشتہ دار غسل دے ، اگر وہ اچھی طرح غسل دینا ، نہ جانتا ہو ، تو متقی ، پرہیز گار شخص کا غسل دینا بہتر ہے ۔( ردالمحتار علی الدرالمختار ، کتاب الصلاة ، با ب الجنازة ، جلد 3 ، صفحہ 112 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:بہتر یہ ہے کہ نہلانے والا میّت کا سب سے زيادہ قریبی رشتہ دار ہو، وہ نہ ہو یانہلانا نہ جانتا ہو، تو کوئی اور شخص جو امانت دار و پرہیزگار ہو۔( بھارِ شریعت ، جلد 1 ،حصہ 4 ،صفحہ 811 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   شیخ الاسلام و المسلمین اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340 ھ/1921ء) سے سوال کیا گیا کہ امام وقتاً فوقتاً میت کو غسل دیتا ہے ، تو کیا اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی ؟ تو آپ علیہ الرحمۃ جواباً فرماتے ہیں: میّت مسلم کو نہلانا فرض ہے اور فرض کے ادا کرنے میں اجر ہے اور اگر وہاں اور بھی کوئی اس قابل ہو کہ نہلاسکے ، تو اس کے نہلانے پر اجرت لینا بھی جائز ہے ، بہر حال اس سے امامت میں کوئی خلل نہیں آتا۔(فتاویٰ رضویہ، كتاب الصلاة ، جلد6،صفحہ578،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم