Ghusl e Mayyat Ke Pani Ki Cheentain Pak Hain Ya Napak ?

غسلِ میت کے پانی کی چھینٹیں کیا ناپاک ہوتی ہیں؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13115

تاریخ اجراء: 01جمادی الاولیٰ1445 ھ/16نومبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ جب کسی شخص کا انتقال ہوجاتا ہے تو کیا وہ ناپاک ہوجاتا ہے؟ اگر میت کو غسل دینے والے شخص کے کپڑوں پر غسلِ میت کے پانی کی کچھ چھینٹیں پڑجائیں، تو کیا اُس کے وہ کپڑے ناپاک ہوجائیں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   راجح قول کے مطابق موت نجاستِ حکمیہ ہے، لہذا میت کے جسم پر کوئی نجاست نہ ہو تو اُس کے غسل کا پانی مستعمل ہوگا اور مفتیٰ بہ مذہب  میں  مستعمل  پانی ناپاک نہیں ہوتا،لہذا  غسلِ میت دینے والے کے کپڑوں پر اگر اُس پانی کی چھینٹیں پڑجائیں تو اُس کے کپڑے پاک ہی رہیں گے۔

   غسلِ میت کا  پانی مستعمل ہوتا ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ شامی، بحر الرائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”والنظم للآخر“ فی فتاوی الظھیریۃ: وغسالۃ المیت نجسۃ کذا اطلق محمد فی الاصل، و الاصح انہ اذا لم یکن علیٰ بدنہ نجاسۃ یصیر الماء مستعملاً ولا یکون نجساً الا ان محمداً انما اطلق نجاسة الماء لان غسالتہ  لا تخلو عن النجاسۃ غالباً “یعنی فتاویٰ ظہیریہ میں ہے کہ  میت کا غسالہ ناپاک ہے جیسا کہ امام محمد علیہ الرحمہ نے اصل میں اسے مطلق ذکر کیا ۔  اصح یہ ہے کہ جب میت کے بدن پر کوئی نجاست نہ ہو تو اس کے غسل کا پانی مستعمل ہوگا ،  نجس نہ ہوگا، مگر امام محمدعلیہ الرحمہ کا اس پانی کو مطلق نجس ذکر کرنا اس وجہ سے ہے کہ  میت کا غسالہ غالب طور پر نجاست سے خالی نہیں ہوتا۔(البحر الرائق، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 97، مطبوعہ بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اس حوالے سے فرماتے ہیں:”میت کے بارے میں علماء مختلف ہیں جمہور کے نزدیک موت نجاستِ حقیقیہ ہے اس تقدیر پر تو وہ پانی کہ غسلِ میت میں صرف ہوا مائے مستعمل نہیں بلکہ ناپاک ہے اور بعض کے نزدیک نجاستِ حکمیہ ہے بحر الرائق وغیرہ میں  اسی کو اصح کہا اس تقدیر پر وہ پانی بھی مائے مستعمل ہے اور ہماری تعریف کی شقِ اول میں داخل کہ اس نے بھی اسقاطِ واجب کیا۔۔۔یوں ہی غسلِ میت کا دوسرا اور تیسرا پانی بھی مستعمل ہوگا کہ اگر چہ پہلے پانی سے اسقاطِ واجب ہوگیا مگر غسل میت میں تثلیث بھی قربت مطلوبہ فی الشرع ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 02، ص 45، رضا فاؤنڈیشن،  لاہور، ملتقطاً)

   مزید تھوڑا آگے سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں :”او غسل المیت و کون غسالۃ المیت مستعملۃ ھو الاصح“یعنی غسلِ میت کا پانی اور اس  پانی کا مستعمل ہونا ہی اصح ہے۔(فتاوٰی رضویہ، ج 02، ص 48، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مائے مستعمل ناپاک نہیں۔ جیساکہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”مائے مستعمل صحیح و معتمد و مفتیٰ بہ مذہب  میں ناپاک نہیں طاہر غیر مطہر ہے یہی ہمارے امام اعظم رضی  اللہ عنہ کا مذہب معتمد ہے۔“(فتاوٰی رضویہ، ج04، ص 335،  رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہار شریعت میں ہے:”راجح یہ ہے کہ میّت کا غسل نجاست حکمیہ دُور کرنے کے ليے ہے تو مستعمل پانی کی چھینٹیں پڑیں اور مستعمل پانی نجس نہیں، جس طرح زندوں کے وضو و غسل کا پانی۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 817، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم