Dam Kiya Hua Pani Qabar Par Dalna Kaisa?

 

دم کیا ہوا پانی قبر پر ڈالنا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-9113

تاریخ اجراء: 23ربیع الاول1446ھ/28ستمبر   2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ حصولِ برکت کےلیے قبر پر سورۃ الملک کا دم کیا ہوا پانی ڈالنا جائز ہے،کیایہ اسراف تونہیں کہلائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   متبرک چیزوں کوحصولِ برکت کے لیے استعمال میں لانا مسلمانوں میں شروع سے رائج ہےاور آیاتِ قرآنیہ یا سورۃ الملک كا دم کیا ہوا پانی بلاشبہ بابرکت ہے،لہٰذا قبر پر دم کیا ہوا پانی ڈالنا جائز ہے،یہ اسراف شمار نہیں ہوگا۔

   اِسراف شمار نہ ہونے کی تفصیل:قبر پر پانی ڈالنے کے حوالے سے شریعتِ مطہرہ میں بڑےواضح احکام موجود ہیں:

   (1)تدفین کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا سنت ہے،نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے شہزادے حضرت ابراہیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی قبرِ مبارک پرپانی چھڑکا،حضرت عثمان بن مظعون رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی قبر پر پانی چھڑکنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ نبی کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تربتِ اطہرپرحضرت بلال بن رباح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پانی چھڑکا،جیساکہ سنن ابن ماجہ،مسند بزّار،مشکوۃ المصابیح ،وغیرہا کتب ِ احادیث  میں موجود ہے۔

   (2)اگر قبر کی مٹی بکھرنے اور قبر کے نشانات مٹنے کااندیشہ ہو،تو اِس صورت میں پانی کا چھڑکاؤ کرنے کی اجازت بلکہ تاکید ہے،تاکہ قبر کو بے حرمتی سے بچایا جاسکے۔

   (3)بےمقصدصرف رسمی طور پر بلاضرورت قبر پر پانی ڈالنا(جیساکہ عاشوراء وغیرہ میں ہوتا ہے)یا اس نیت سے ڈالنا کہ پانی کی ٹھنڈک میت کو پہنچتی ہے،یہ  اِسراف (یعنی فضول ضائع کرنا)ہےاور پانی یا کوئی بھی ایسی چیز جس کی کچھ قیمت بنتی ہو،بلا وجہ ضائع کرنا ،ناجائز وگناہ ہے۔

   اس تفصیل کے بعد اب جہاں تک قرآنی آیات کا دم کیا ہوا پانی ڈالنے کا تعلق ہے،تو اِس حوالے سے عرض یہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں اعمال اور معاملات کا اعتبار مقاصد کے لحاظ سے ہوتا ہے،فقہ   اسلامی کا مسلّمہ اُصول ہے: الامور بمقاصدھایعنی اعمال اور معاملات کا دار ومدار اُن کے مقاصد پر ہے۔مقصد تبدیل ہونے سے حکم میں بھی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے،فقہ میں اس کی بہت سی نظائر موجود ہیں:(1)کسی نے ناراض ہوکراپنے مسلمان بھائی سےسلام و کلام اور بول چال چھوڑ دی،اگر اس نے بلاسببِ شرعی تین دن سے زیادہ اس عمل کو جاری رکھا تو حرام ہے، کیونکہ حدیث شریف میں تین دن سے زیادہ ترکِ سلام و کلام کی مُمانعت ہےاور اگر کسی سببِ شرعی کی وجہ سے تین دن سے زیادہ بھی ترکِ سلام و کلام کیا کہ وہ بدکار،یا شرابی یا بے نمازی ہے،تو جائز ہے۔(2)اسی طرح کوئی پڑی ہوئی چیز ملی اگر اس مقصد سے اٹھائی کہ مالک کو پہنچادے گا،تو جائز، ورنہ ناجائز۔ (ملخصاًازبھار شریعت ،جلد 3 ، صفحہ 1068)

   اِس ضابطہ کی روشنی میں غور کیا جائے، تو قبر پر صرف رسماً اور بلاوجہ  پانی ڈالنا اپنے مقصد کےاعتبار سے ناجائز ہواکہ اس میں پانی کا اسراف ہے اور اسراف ممنوع وناجائز ہے،جبکہ قرآنی آیات کا دم کیاہوا پانی حصولِ برکت کے لیے ڈالا جارہا ہے،تواس مقصد سے  ڈالنا جائز ہےكہ مقصد مستحسن اور اچھا ہے،لہٰذا مقصد تبدیل ہونے سے حکم میں بھی تبدیلی واقع ہوگئی اور یہ ایسا عمل بھی نہیں جو قرآن و حدیث کی تعلیمات کے خلاف ہو،بلکہ احادیث طیّبہ واقوال فقہائے کرام میں اس کی بہت سی نظائر موجود ہیں،جیساکہ

   (١)مریضوں پر آب ِزَمْ زَمْ شریف ڈالنا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کے عمل مبارک سے ثابت ہے۔

   (٢)اِسی طرح برکت کے لیے کفن کو آب ِزم زم سے  گیلا کر کے لانا،جائز ہے،حالانکہ پھر وہ خشک ہی ہوگا اور دھلے گا بھی نہیں۔

   (٣) یونہی علمائےکرام بیان کرتے ہیں کہ نئی نویلی دلہن جب بیاہ کرگھر لائی جائے ،تو اس کے پاؤں کو دھلوا کر چھڑکا جائے،تو خیر و برکت ہوگی کہ اس گھر میں وہ اب آئی ہے اور یہاں وہ اللہ تعالیٰ کی کسی نافرمانی میں مرتکب نہیں ہوئی،تو اس کے پاؤں دھو کر ڈالنا نیک فالی ہے۔

   ان تینوں مسائل سےواضح ہوا کہ جب مریضوں پر برکت کے لیے آب زم زم ڈالنا،برکت کے لیے کفن پر آب ِ زم زم ڈالنا اور دلہن کےپاؤں دھوکر دیواروں پر پانی ڈالنا  جائز اور اسراف میں داخل نہیں ،تو قرآنی آیات پڑھ کر دم کیا ہوا پانی قبر پر ڈالنا بھی  جائز ہے۔

   اب رہا یہ سوال کہ متبرک پانی قبر پر ڈالنے کی برکت قبر والے کوپہنچنے کی کیا دلیل  ہے؟ تو اس کی دلیل علمائے کرام کا یہ فرمان ہے  کہ حضور جانِ کائنات صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے موئے مبارک اگر کسی گنہگار کی قبر کے اوپر رکھے جائیں،تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب قبر سے نجات عطا فرمائےگا،تو جیسے قبر کے اوپر موئے مبارک رکھنے سے قبر کےاندر میت کو برکت پہنچ سکتی ہے،یونہی قرآنی آیات کے دم والے پانی سے بھی برکت پہنچ سکتی ہے۔

   حاصل ِکلام یہ کہ قبر پر حصولِ برکت کے لیے قرآنی آیات کا دم کیا ہوا پانی ڈالنا  جائز اور درست ہے۔

اب اس تفصیل کے مطابق جزئیات ملاحظہ کیجیے:

   تبیین الحقائق،بحرالرائق،محیط برہانی،جوہرۃ النیرہ ،تنویر الابصارودرمختارمع ردالمحتار اور دیگر کتبِ فقہ میں ہے،واللفظ للآخر:(ولا بأس برش الماء عليه)حفظا لترابه عن الاندراس(قولہ:ولا بأس برش الماء عليه) بل ينبغی أن يندب،لأنه صلى اللہ عليه وسلم فعله بقبر سعد كما رواه ابن ماجه،وبقبر ولده إبراهيم،كما رواه أبو داود فی مراسيله،وأمر به فی قبر عثمان بن مظعون،كما رواه البزار ترجمہ:اور (تدفین کے بعد)قبر  پر پانی چھڑکنے میں حرج نہیں،قبر کے نشانات مٹنے سے بچانے کے لیے۔(علامہ شامی لکھتے ہیں:)ماتن کا قول: (ولا بأس برش الماء عليه قبر  پر پانی چھڑکنے میں حرج نہیں۔)بلکہ یہ (سنت)مستحبہ ہے، کیونکہ نبی پاک حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سعد کی قبر پر ایسے ہی کیا، جیساکہ ابن ماجہ میں ہےاور اپنے شہزادے حضرت ابراہیم کی قبر پر بھی،جیساکہ مراسیلِ ابو داؤد میں ہے اور حضرت عثمان بن مظعون رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہم کی قبر پر ایسا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ،جیساکہ مسند بزار میں ہے۔(الدر المختار مع ردا لمحتار، جلد 3، صفحہ 169، باب صلاۃ الجنازہ، مطبوعہ کوئٹہ)

   تمہید میں ذکرکردہ قبر پر پانی ڈالنے کی تینوں صورتوں کو بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” بعدِ دفن قبر پرپانی چھڑکنا مسنون ہے اوراگر مرورِ زمان سے اس کی خاک منتشر ہوگئی ہو اورنئی ڈالی گئی یا منتشر ہو جانے کا احتمال ہو،تو اب بھی پانی ڈالا جائے کہ نشانی باقی رہے اور قبر کی توہین نہ ہونے پائے۔’’به علل فى الدر غيره أن لا يذهب الأثر فيمتهن‘‘(در مختار وغیرہ میں یہی علت بیان فرمائی ہے کہ نشانی مٹ جانے کے سبب بے حرمتی نہ ہو)۔اس کے لیے کوئی دن معین نہیں ہو سکتا ہے ،جب حاجت ہو اور بے حاجت پانی کا ڈالنا ضائع کرنا ہے اور پانی ضائع کرنا، جائز نہیں اور عاشورہ کی تخصیص محض بے اصل و بے معنی ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد9، صفحہ 373، مطبوعه رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اُمور کااعتبار ان کے مقاصد کے لحاظ سے ہوتا ہے،چنانچہ فقہ اسلامی کا اُصول  ہے: الامور بمقاصدھا یعنی اعمال اور معاملات کا دار ومدار ان کے مقاصد پر ہے۔ (الاشباہ والنظائر  ،الفن الاول،القاعدۃ الثانیہ ،صفحہ23،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت    )

   متبرک چیزوں کوحصولِ برکت کے لیے استعمال میں لانا مسلمانوں میں شروع سے رائج ہے، بالخصوص قبر کے تعلق سےبرکت والی چیز کو استعمال میں لانا ،خود صحابہ كرام عَـلَيْهِمُ الرِّضْوَان سے ثابت ہے،جیساکہ صحیح بخار ی شریف میں ہےکہ ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے اپنا کفن بنانےکے لیے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے چادر مانگی اور حضرت سہل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ چادر اس سائل کا کفن بنی۔(صحیح البخاری،کتاب الجنائز ،جلد1، صفحہ249،مطبوعہ لاھور)

   اسی طرح بخاری شریف میں ہے کہ خود حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی صاحب زادی کے انتقال کے بعد ان کے کفن میں اپنی مبارک چادر رکھوائی ۔(صحیح البخاری،کتاب الجنائز ،جلد1، صفحہ246،مطبوعہ لاھور)

فقہی نظائر کے جزئیات :

   (1)آب ِزَم زَم متبرک پانی ہے،زمانہ رسالت ودورِ صحابہ میں زم زم شریف مریضوں کو شفایابی اورحصولِ برکت کے لیے پلایا جاتا اور اُن پرچھڑکاجاتا تھا،اسی وجہ سے حُصولِ برکت کے لیےزَمزَم کو قبر یا کفن پر چھڑکنے کی علما اجازت دیتے ہیں،لہٰذاقرآنی آیات کے دم والا پانی بھی قبر پر چھڑکا جا سکتا ہے،سنن الکبری للبیہقی،شُعَبُ الاِیمان اور دیگر کتبِ احادیث میں ہے:عن عائشة أنها كانت تحمل ماء زمزم فی القوارير و تذكر أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فعل ذلك،زاد فيه غيره عن أبی كريب وكان يصب على المرضى ويسقيهم“ترجمہ: حضرت سیدہ عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا سے مروی ہے کہ آپ آب زمزم کوبوتلوں میں بھر کر لےجاتیں اور فرماتیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی ایسے کیا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آب زَمْ زَم مریضوں کے اوپر ڈالتے اور اُنہیں پلاتے۔(شعب الايمان،فضل الحج و العمرۃ ،جلد 6، صفحہ 32 ، مطبوعہ  ریاض )

   (2)اِسی طرح برکت کے لیے کفن کو آب ِزم زم سے  گیلا کر کے لانا،جائز ہے،حالانکہ پھر وہ خشک ہی ہوگا اور دھلے گا بھی نہیں۔مفسرِ قرآن ابو الفداءعلامہ اسماعیل حقی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1127ھ) تفسیرروح البیان“ میں لکھتے ہیں: قال فى الاسرار المحمدية لو وضع شعر رسول اللہ او عصاه او سوطه على قبر عاص لنجا ذلك العاصي ببركات تلك الذخيرة من العذاب وان كان فى دار انسان او بلدة لا يصيب سكانها بلاء ببركته وان لم يشعروا به ومن هذا القبيل ماء زمزم ‌والكفن ‌المبلول به‘‘ ترجمہ:اسرارِ محمدیہ میں کہا:اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک ،عصا مبارک،یاچابک مبارک کسی گنہگار کی قبر پر رکھا جائے،تو وہ گنہگار ان متبرک چیزوں کی برکت سے عذاب سے نجات پاجائے گا اور اگر یہ کسی انسان کے گھر یا کسی شہر میں ہوں،تو ان کی برکت سے وہاں کے رہنے والوں کو آزمائش اور مصیبتیں نہیں پہنچیں گی،اگرچہ انہیں ان کے ہونے کا علم نہ ہو  اور اِسی قبیل سے ہےزم زم شریف کا پانی اور  اس سے  دھویا ہوا کفن ۔(روح البیان، جلد3، صفحہ 479 ،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت)

   (3)دلہن جب بیاہ کرگھر لائی جائے،تو اس کے پاؤں کو دھوکر پانی چھڑکا جائے،تو خیر و برکت ہوگی،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے  لکھا:دلہن کو بیاہ کر لائیں تو مستحب ہے کہ اس کے پاؤں دھو کر مکان کے چاروں گوشوں میں چھڑکیں اس سے برکت ہوتی ہے۔‘‘ ( فتاوی رضویہ ،جلد 2،صفحہ  595 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم