Chote Bache Ka Janaza Hathon Par Utha Kar Qabristan Le Jana Kaisa ?

چھوٹے  بچے کا جنازہ ہاتھوں پر اٹھاکر قبرستان لے جانا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد قاسم  عطاری

فتوی نمبر: Fsd-8520

تاریخ اجراء: 01 ربیع الاول 1445ھ/18 ستمبر   2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ نومولود یا چند ماہ کابچہ یا بچی فوت ہو جائے ،تو اسے جنازے والی چارپائی کی بجائے ہاتھوں پر اٹھا کر قبرستان  لے جاتے ہیں،ایسے چھوٹے  بچے کا جنازہ ہاتھ میں اٹھاکر لے جانا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب میت کسی نومولود یا دودھ پیتے بچے یا ان سے کچھ بڑی عمر والے کی نہ ہو،بلکہ کسی بڑے کی ہو ،توجنازہ اٹھانے میں سُنَّت یہ ہے کہ میت چار پائی پر ہو اور اس کو چار افراد اٹھائیں،جیسا کہ حدیث پاک سے یہی ثابت ہے اور اِسی پر لوگوں کا آج تک بغیر کسی اختلاف کے عمل جاری و ساری ہے ،نیز جنازہ اٹھانے میں ایک دوسرے سے سبقت لینا شريعت كو مطلوب ہے اور چارپائی کو چار افراد کے اٹھانے میں یہ عمل زیادہ ممکن ہے،مزید یہ کہ  اس میں میت کے گِرنے سے حفاظت ہے اور میت کی تعظیم بھی ہے کہ مسلمانوں کی ایک تعداد اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کر لے جاتی ہے۔

   البتہ جب میت،نومولود بچہ  یا بچی ،دودھ پیتا بچہ یا جس نے ابھی دودھ چھوڑا ہو یا جو اس سے کچھ بڑا ہو،اُس کی میت کو ہاتھوں  پر اُٹھا کر لے جانا،جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج  نہیں،یہی  لوگوں میں معروف اور رائج ہے،نیز جن مقاصد کے لیے میت کو چار پائی پر رکھ کر اٹھایا جاتا ہے،ایسے بچے کو ہاتھوں پر اُٹھاکر لے جانے میں وہ سارے مقاصد،یعنی تکریمِ میت ،جنازہ اٹھانے میں لوگوں پر آسانی،میت کو گِرنے سے محفوظ رکھنا،وغیرہ سب یہاں بھی حاصل ہوتے ہیں،لہٰذا ایسے چھوٹے  بچے کی میت کو ہاتھوں پر لے جانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں،البتہ لوگ بدل بدل کر میت کو ہاتھوں میں لیتے رہیں ۔

   بڑی عمر کے مرد و عورت کے جنازےکو چارپائی پر اُٹھانا سُنَّت ہونے کے متعلق بدائع الصنائع،بحرالرائق، غنیۃ المستملی اور دیگر کتب ِ فقہ میں ہے،واللفظ للاول:السنة في ‌حمل ‌الجنازة أن يحملها أربعة نفر من جوانبها الأربع عندنا ترجمہ :ہمارے (احناف کے) نزدیک  جنازہ اٹھانے میں سنت یہ ہےکہ چار افراد جنازے کو چاروں جانب سے اٹھائیں۔(بدا ئع الصنائع،کتاب الصلاۃ،فصل في حمل الجنازۃ ،جلد2،صفحہ331،مطبوعہ کوئٹہ)

   مذکورہ بالا مسئلے کی دلیل اور مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء)اورعلامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:616ھ/1219ء)  لکھتےہیں،واللفظ للثانی:ما روى ابن مسعود رضي اللہ  عنه أنه قال:من السنّة أن تحمل الجنازة من جوانبها الأربع وعن عمر رضي اللہ عنه أنه كان يدور على الجنازة من جوانبها الأربع،ولأن عمل الناس اشتهر بهذه السنّة من غير نكير منكر وإنه حجة،ولأن المسارعة في حملها،والحمل بأربعة يكون أبلغ في المسارعة،وفيه تخفيف على الحاملين،وصيانة للميت عن السقوط،وتعظيم للميت بأن يحمله جماعة من المؤمنين على أعناقهم ترجمہ:اوپر ذکر کردہ حکم کی  دلیل وہ حدیث پاک ہے جو حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا :سنت یہ ہے کہ جنازے کو چاروں جانب سے اٹھایا جائےاور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  جنازے کی چاروں جانب گھومتے یعنی اٹھاتے تھے،اِسی سُنَّت پر آج تک لوگوں کا بغیر کسی اختلاف کے عمل جاری  ہےاور یہ بھی شرعاً ایک دلیل ہےاور جنازه اٹھانے میں ايك دوسرے سے سبقت کرنی چاہیے اور چاروں جانب سے اٹھانے میں مسابقت کی صورت زیادہ ہوگی،نیز اس میں اُٹھانے والوں کے لیے آسانی ہے ،میت کے گِرنے سے حفاظت ہے اور میت کی تعظیم بھی زیادہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت اسے اپنی گردنوں پر اٹھاتی ہے۔(المحیط البرھانی،کتاب الطلاق،جلد2،صفحہ175، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان)

   دودھ پیتے اور اس جیسے بچے کا جنازہ ہاتھوں پر اٹھانے میں شرعاً حرج نہیں،چنانچہ مبسوطِ سرخسی،بحر الرائق،درمختار مع رد المحتاراورفتاوی عالمگیری میں ہے،واللفظ للبحر:وذكر الاسبيجابي أن ‌الصبي الرضيع أو الفطيم أو فوق ذلك قليلا إذا ‌مات فلا بأس بأن يحمله رجل واحد ‌على ‌يديه ويتداوله الناس بالحمل على أيديهم،ولا بأس بأن يحملها ‌على ‌يديه،وهو راكب،وإن كان كبيرا يحمل على الجنازة ترجمہ:امام اسبیجابی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃنے ذکر کیا کہ جب دودھ پیتا بچہ یا جس نے ابھی دودھ چھوڑا ہو یا اس سے کچھ بڑی عمر کا  بچہ فوت ہوجائے،تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ اسے ایک شخص اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھا لے  اور بچے کو ہاتھوں پر اٹھانا لوگوں میں رائج اور معمول ہے اور اگر کسی شخص نے اتنے چھوٹے بچے کو ہاتھوں پر اٹھایا ہوا ہواور خود سوار ہو ،تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں  اور اگر میت اس سے بھی بڑی ہو،تو اس کا جنازہ چار پائی پر اٹھایا جائے گا۔(بحر الرائق،کتاب  الجنائز ،جلد2،صفحہ335،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   بچے کی میت کو ہاتھوں پر اٹھانے کی علت اور اس کی تفصیل کے بارے میں بدا ئع الصنائع اور محیطِ برہانی میں ہے، واللفظ للاخر:ویکرہ ان یحمل الصبی علی الدابۃ لان حملہ علی الدابۃ یشبہ حمل الاثقال وفي الحمل بالأيدی إكرام الميت،والصغار من بني آدم يكرمون كالكبار…لأن الحمل من الجوانب الأربع إنما تيسيراً على الحاملة وصيانة للميت عن السقوط وفي حمل الصبي الرضيع لا يحتاج إليه فيحمله واحدترجمہ:اور بچے کی میت کو چوپائے پر اٹھانا ،مکروہ ہے،کیونکہ چوپائے پر اُٹھاكر لے جانا،بوجھ اور سامان اٹھانے کے مشابہ ہے،جب کہ ہاتھوں میں اٹھانے میں میت کی تکریم ہے اور چھوٹے بچے بھی اولادِ آدم ہیں،بڑوں کی طرح ان کی بھی عزت کی جائے گی۔۔۔مزید یہ کہ جنازے کو چاروں جانب سے اٹھانے کا حکم اس لیے ہے،تاکہ اٹھانے والوں پر آسانی ہو،میت کو گِرنے سے بچایا جاسکے  اور دودھ پیتے بچے کو اٹھانے میں ان باتوں  کی حاجت نہیں، لہٰذا اسے ایک شخص بھی اٹھا سکتا ہے ۔(المحیط البرھانی، کتاب الطلاق، جلد2، صفحہ176،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:چھوٹا بچّہ شیرخوار یا ابھی دُودھ چھوڑا ہو یا اس سے کچھ بڑا،اس کو اگر ایک شخص ہاتھ پر اٹھا کر لے چلے،تو حرج نہیں اور یکے بعد دیگرے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے رہیں اور اگر کوئی شخص سواری پر ہو اور اتنے چھوٹے جنازہ کو ہاتھ پر ليے ہو، جب بھی حرج نہیں اور اس سے بڑا مردہ ہو ،تو چارپائی پر لے جائیں۔ ‘‘(بھارشریعت،جلد1،حصہ 4، صفحہ823،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم