مجیب: ابو حفص مولانا محمد
عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-2181
تاریخ اجراء: 25ربیع ا الثانی1445 ھ/10نومبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شرعاًنماز جنازہ کی ادائیگی
،کھلے آسمان کے نیچے ہی
ہونا ہرگز ضروری
نہیں،بلکہ نماز جنازہ چھت کے نیچے جیسےمدرسہ یا کسی
عمارت میں اور کھلے آسمان
تلے جیسے جنازہ گاہ،عید گاہ
وغیرہ دونوں طرح کی جگہوں میں ادا کیا جاسکتا
ہے۔ یہ بیان کردہ حکم کہ نماز جنازہ چھت کے نیچے اور کھلے
آسمان تلے دونوں جگہ ہی ادا کیا جاسکتا ہے، مسجد سے
متعلق نہیں یعنی اس حکم میں مسجد داخل نہیں
کیونکہ مسجد کے اندر نماز جنازہ کی ادائیگی مطلقاً مکروہِ
تحریمی، ناجائز وگناہ ہے ،چاہے جنازہ مسجد کے اندر ہو اور نمازی
باہر یا سب نمازی یابعض
مسجد کے اندر ہوں اور جنازہ باہر۔
نماز
جنازہ کو چھت کے نیچے(جیسے مدرسہ وغیرہ) اور کھلے آسمان
تلے(جیسے جنازہ گاہ،عیدگاہ ) دونوں طرح کی جگہوں میں ادا
کرنے سے متعلق،حاشیۃ
الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:’’لا تکرہ صلاۃ الجنازۃ في مسجد أعد لها،وکذا في مدرسة
ومصلی عید‘‘ ترجمہ:نماز
جنازہ ایسی مسجد میں ادا کرنا مکروہ نہیں جو نماز جنازہ
کیلئے ہی تیار کی گئی ہو،اور اسی طرح مدرسہ
میں اور عید گاہ میں بھی مکروہ نہیں۔(حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح، باب أحکام
الجنائز، صفحہ 595،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
بغیر
علم کے فتوی دینے والے کے متعلق، كنز العمال کی حديث مبارکہ ہے:’’من
افتی بغیر علم لعنتہ ملائکۃ السماء والارض‘‘ ترجمہ:جو بغیر علم کے فتوی دے اس پر آسمان و
زمین کے فرشتوں کی لعنت ہو۔ (کنز العمال، جلد5، کتاب العلم،صفحہ84،رقم الحدیث: 29014،دار الکتب
العلمیۃ، بیروت)
مسجد کے
اندر نماز جنازہ کی ادائیگی مکروہ تحریمی ہے،جیسا کہ تنویرالابصارودرمختار
میں ہے :’’(کرھت تحریما فی مسجد جماعۃ ھو)أی المیت(
فیہ) وحدہ أو مع القوم( واختلف فی الخارجۃ)عن المسجد وحدہ أو مع
بعض القوم (والمختار الکراھۃ ) مطلقاً ‘‘ترجمہ: نماز جنازہ کی ادائیگی مکروہ
تحریمی ہے، مسجدِجماعت میں جس میں تنہامیّت
ہویا پڑھنے والوں کے ساتھ ہو،اوراس نماز جنازہ کے بارے میں اختلاف ہے
جس میں میت تنہا یا بعض
لوگوں کے ساتھ بیرونِ مسجد ہو،اور مختاریہ ہے کہ مطقاً مکروہ
ہے۔(تنویر الابصار مع درمختار،جلد3،باب صلاۃ
الجنازۃ،صفحہ148،مطبوعہ: کوئٹہ)
اس کے
تحت ردالمحتار میں ہے :’’قولہ :(مطلقا)أ
ی فی جمیع الصور المتقدمۃ کما فی الفتح عن
الخلاصۃ وفی مختارات النوازل
سواء کان المیت فیہ أوخارجہ ھو ظاھر الروایۃ‘‘ترجمہ:اور ان کا قول مطلقاًیعنی
گزشتہ تمام صورتوں میں، جیسا کہ فتح القدیر میں خلاصہ سے
منقول ہے ۔اورمختارات النوازل میں ہے کہ خواہ میت مسجد کے اندر
ہو یا باہر، یہی ظاہرالروایۃ ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد3،باب صلاۃ
الجنازۃ، صفحہ 148، مطبوعہ: کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
تیجے کے چنوں کا مالدار کو کھانا کیسا؟
میت کے غیر ضروری بال کاٹنے کا حکم؟
غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا حکم؟
کیا قبر میں شجرہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر کتنی دیرتک ٹھہرنا چاہیے؟
قبر بیٹھنے کی صورت میں قبر کے اوپر کی تعمیر نو کرسکتے ہیں؟
نماز جنازہ کی تکرار کرناکیسا ہے؟
غسل میت سے پہلے میت کے پاس تلاوت کرنا کیسا؟