Aurat Ki Mayyat Ko Taboot Mein Rakh Kar Dafan Karna Kaisa?

عورت کی میت کو تابوت میں رکھ کر دفن کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Aqs-2527

تاریخ اجراء:27ربیع الاول1445ھ/12اکتوبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت کی ميت کو تابوت میں رکھ کر دفن کرنے کے متعلق شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا ایسا کر سکتے ہیں ، چاہے زمین کی نرمی وغیرہ کی وجہ سے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کا معاملہ زندگی میں اور موت کے بعد بھی ستر یعنی پردے کا ہوتا ہے، لہٰذا مسلمان عورت کی میت کو کسی ضرورت کے بغیر بھی تابوت یعنی لکڑی یا پتھر وغیرہ کے صندوق میں رکھ کر دفن کر سکتے ہیں ، بلکہ فقہائے کرام نے عورت کی میت کو تابوت میں دفن کرنے کو مستحسن یعنی اچھا عمل قرار دیا ہے ، کیونکہ اس طرح اسے چھونے سے بھی بچا جائے گا اور اگر کبھی خدانخواستہ بارش کی کثرت یا کسی اور وجہ سے قبر کھل جائے اور میت ظاہر ہو جائے ،تو عورت کا پردہ بھی باقی رہے گا ۔ تابوت میں دفنانے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ اس کے اندر مٹی بچھا دیں اور اندر ہی سیدھی و الٹی طرف کچی اینٹیں لگا دیں اور ڈھکن کو نیچے کی طرف سے مٹی سے لَیپ دیں ، تاکہ اندر کا حصہ قبر جیسا ہو جائے ۔نیز اگر عورت کی میت تابوت میں نہ ہو ، تو اس کے جنازے کی چارپائی کو اور پھر قبر میں اتارتے ہوئے تختے لگانے تک قبر کو کسی چادر یا کپڑے وغیرہ سے ڈھکے رہنا مستحب ہے، تاکہ عورت کی میت کا غیر مردوں سے پردہ برقرار رہے ۔

   نوٹ : مسلمان مرد کی میت کو بلا ضرورت تابوت میں دفن کرنا ،مکروہ و ممنوع ہے، لیکن اگر ضرورت ہو ،مثلا: قبر کی مٹی نرم ہو یا اس زمین میں پانی ہو ، تو صرف ایسی ضرورت کے وقت مرد کو تابوت میں دفن کر سکتے ہیں ۔

   میت کو تابوت میں دفنانے اور عورت کی قبر کو کپڑے وغیرہ سے چھپانے سے متعلق تنویر الابصار و در مختار میں ہے : ”(لا باس باتخاذ تابوت) ولو من حجر او حدید (لہ عند الحاجۃ) کرخاوۃ الارض (ویفرش فیہ التراب ۔۔۔ ویسجی قبرھا لا قبرہ) الا لعذر کمطر ، ملخصا “ ترجمہ : مردکی میت (کو دفن کرنے) کے لیے ضرورت ،مثلا: زمین نرم ہونے کی صورت میں تابوت کے استعمال میں حرج نہیں ہے، اگرچہ وہ پتھر یا لوہے کا ہو اور سنت یہ ہے کہ اس میں مٹی بچھا دی جائے اور عورت کی قبر کو ڈھانپا جائے ، مرد کی قبر کو نہیں ، سِوائے مجبوری کےمثلا:بارش کی وجہ سے ۔

   رد المحتار میں ہے : ”قولہ (لا باس باتخاذ تابوت الخ) ای : یرخص ذلک عند الحاجۃ والا کرہ ، قال فیہ الحلبۃ : نقل غیر واحد عن الامام ابن الفضل انہ جوّزہ فی اراضیھم لرخاوتھا ، وقال : لکن ینبغی ان یفرش فیہ التراب وتطین الطبقۃ العُلیا مما یلی المیت ویجعل اللبن الخفیف علی یمین المیت و یسارہ لیصیر بمنزلۃ اللحد ۔۔۔ قولہ (لہ) ای : للمیت کما فی البحر او للرجل ، ومفھومہ انہ لا باس بہ للمرأۃ مطلقا ، وبہ صرح فی شرح المنیۃ فقال: وفي المحيط: واستحسن مشائخنا اتخاذ التابوت للنساء، يعني ولو لم تكن الأرض رخوة فإنه أقرب إلى الستر والتحرز عن مسها عند الوضع في القبر  اھ ۔۔۔ قولہ (ویسجی قبرھا) أي بثوب ونحوه استحبابا حال إدخالها القبر حتى يسوى اللبن على اللحد، كذا في شرح المنية والإمداد ، ملخصا “ ترجمہ : مصنف رحمۃ اللہ   علیہ کا قول (تابوت کے استعمال میں حرج نہیں) یعنی : ضرورت کے وقت اس کی رخصت ہے ، ورنہ مکروہ ہے ۔ حلبہ میں کہا : امام ابنِ فضل رحمۃ اللہ علیہ سے کئی علما نے یہ بات نقل کی ہے کہ انہوں نے اپنے علاقوں میں زمین کے نرم ہونے کی وجہ سے اس (یعنی تابوت) کو جائز قرار دیا اور فرمایا : مناسب یہ ہے کہ اس میں مٹی بچھا دی جائے اور اوپر کا میت کی طرف والا حصہ مٹی سے لَیپ دیا جائے اور میت کے سیدھی اور الٹی طرف کچھ کچی اینٹیں لگا دی جائیں ،تاکہ وہ قبر کے قائم مقام ہو جائے ۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ کا قول (اس کے لیے) یعنی میت کے لیے جیسا کہ بحر میں ہے یا مرد کے لیے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے لیے تابوت میں مطلقا (یعنی کسی بھی صورت میں) حرج نہیں ہے اور شرحِ منیہ میں اس کی تصریح کرتے ہوئے فرمایا : اور محیط میں ہے : ہمارے مشائخ نے عورتوں کی میت کے لیے تابوت کے استعمال کو اچھا قرار دیا ہے یعنی اگرچہ زمین نرم نہ ہو ، کیونکہ یہ پردے اور اسے قبر میں اتارتے ہوئے چھونے سے بچنے کے زیادہ قریب ہے ۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ کا قول (اور عورت کی قبر کو ڈھانپا جائے) یعنی کپڑے یا اس جیسی کسی چیز سے ، یہ اسے قبر میں اتارتے وقت سے لے کر قبر پر اینٹیں برابر کر دینے تک مستحب ہے، اسی طرح شرحِ منیہ اور امداد میں ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار ، ج3 ، ص165،168 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   تدفین ہو جانے تک عورت کی قبر کو ڈھکنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے جوہرہ نیرہ میں ہے : ”یسجی قبرھا بثوب الی ان یسوی اللبن علیھا لان بدنھا عورۃ فلا یؤمن ان ینکشف شیء منہ حال انزالھا فی القبر ولانھا تغطی بالنعش لھذہ العلۃ ، ولا یسجی قبر الرجل کما لا یغطی سریرہ بالنعش “ ترجمہ : عورت کی قبر کو اس پر اینٹیں برابر ہو جانے تک کپڑے سے ڈھانپ کر رکھا جائے ، کیونکہ اس کا جسم چھپانے کی چیز ہے اور اس بات سے مکمل اطمینان نہیں کہ اسے قبر میں اتارتے وقت اس میں کچھ کھل جائے اور ایسا اس لیے بھی کیا جائے، کیونکہ اس کی میت کو اسی وجہ سے تابوت سے ڈھانپا جاتا ہے اور مرد کی قبر کو ڈھانپا نہ جائے،جیسے اس کی چارپائی کو بھی تابوت سے نہیں ڈھانپتے ۔ (الجوھرۃ النیرہ، ج1 ، ص140 ، مطبوعہ کراچی)

   محیطِ برہانی میں ہے:”قال محمد رحمه اللہ في الجامع الصغير : ويسجى قبر المرأة بثوب حتى يفرغ من اللحد ، لأنها عورة من قرنها إلى قدمها ، فربما يبدو شيء من أثر عورتها فيسجى القبر  ، ألا ترى أن المرأة خصت بالنعش على جنازتها ، وقد صح أن قبر فاطمة سجى بثوب ونعش على جنازتها ولم يكن النعش في جنازة النساء حتى ماتت فاطمة رضي اللہ عنها ، فأوصت قبل موتها أن تستر جنازتها ، فاتخذوا لها نعشاً من جريد النخل، فبقي سنّة هكذا في جميع النساء ۔۔۔ وإن كان رجلاً لا يسجى قبره ۔۔۔ إلا لضرورة ۔۔۔ وتاویل قبر سعد بن معاذ انہ انما سجی قبرہ لان الکفن کان لا یستر بدنہ ، فسجی قبرہ حتی لا یقع الاطلاع علی شیء من اعضاءہ ، ملخصا “ ترجمہ : امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے جامع صغیر میں فرمایا : اور عورت کی میت کو قبر مکمل ہو جانے تک کپڑے سے ڈھانپ کر رکھا جائے ، کیونکہ وہ اپنے سَر سے لے کر پاؤں تک چھپانے کی چیز ہے ، تو کہیں اس کی چھپانے کی کوئی جگہ ظاہر نہ ہو جائے ، لہٰذا قبر کو ڈھانپ دیا جائے ۔ کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ جنازے کی چارپائی پر تابوت رکھنے کو عورت کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت سیِّدہ فاطمۃ الزَہراء رضی اللہ عنہا کی قبر کو کپڑے سے اور جنازے کی چارپائی کو تابوت سے ڈھانپا گیا تھا اور اور عورتوں کے جنازے میں تابوت نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ حضرت سیِّدہ فاطمۃ الزَہراء رضی اللہ عنہا نے اپنے وصال کے وقت وصیت کی کہ ان کے جنازے کو ڈھانپ دیا جائے ، تو لوگوں نے ان کے لیے کھجور کے پتوں سے ایک تابوت بنایا ، تو یہ اسی طرح تمام عورتوں میں سنت کے طور پر باقی رہا اور مرد کی قبر کو ضرورت کے علاوہ ڈھانپا نہیں جائے گا اور حضرت سعد بن مُعاذ رضی اللہ عنہ کی قبر کو ڈھانپنے کی وجہ یہ تھی کہ کفن سے ان کا مکمل جسم چھپ نہیں رہا تھا ، لہٰذا ان کی قبر کو ڈھانپا گیا ،تاکہ ان کے جسم کے کسی حصے پر نظر نہ پڑے ۔(المحیط البرھانی ، ج3 ، ص89،91 ، مطبوعہ ادراۃ القراٰن، کراچی)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”تابوت کہ میّت کو کسی لکڑی وغیرہ کے صندوق میں رکھ کر دفن کریں ، یہ مکروہ ہے ، مگر جب ضرورت ہو ،مثلاً: زمین بہت تَر ہے ، تو حرج نہیں اور اس صورت میں تابوت کے مصارف (اخراجات) اُس میں سے ليے جائیں ، جو میّت نے مال چھوڑا ہے ۔ اگر تابوت میں رکھ کر دفن کریں ، تو سنت یہ ہے کہ اس میں مٹی بچھا دیں اور دہنے بائیں خام (کچی) اینٹیں لگا دیں اور اوپر کہگل (مٹی کی لپائی) کر دیں ، غرض یہ کہ اندر کا حصہ مثل لحد کے ہو جائے اور لوہے کا تابوت مکروہ ہے اور قبر کی زمین نم ہو ، تو دُھول (مٹی) بچھا دینا سنت ہے ۔۔۔ عورت کاجنازہ ہو ، تو قبر میں اتارنے سے تختہ لگانے تک قبر کو کپڑے وغیرہ سے چھپائے رکھیں ۔۔۔ عورت کا جنازہ بھی ڈھکا رہے ۔ ملخصا “(بھارِ شریعت ، حصہ4 ، ج1 ، ص843،845 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

ٹیگز : Aurat Mayyat Taboot Dafan