ایک قبر میں زیادہ مُردوں کودفنانا کیسا؟

مجیب:مولاناجمیل غوری صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جولائی 2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ کیا مُتعدّد لاشوں کو بیک وقت ایک بڑی قبر میں دفن کیا جاسکتا ہے؟

سائل:ماہنامہ فیضانِ مدینہ

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     اگر کسی حادثہ کے سبب کثیر اموات و شہادتیں ہوگئی ہوں تب بھی حکم یہی ہے ہر ایک لاش کو الگ الگ قبر میں دفن کیا جائے۔ بلا ضرورت ایک قبر میں متعدد لاشیں دفن کرنا جائز نہیں۔ البتّہ فقہاءِ کرام نے ضَرورت کی بناء پر ایک قبر میں متعدد میّتوں کو دفن کرنے کا جواز بھی ارشاد فرمایا ہے وہ ضرورتیں درج ذیل ہیں:

     (1)لاشیں زیادہ ہوں اور دفن کرنے والے کم ہوں۔ (2)تدفین کرنے والے ضعیف افراد ہوں کہ ہر ایک کے لئے الگ الگ قبرنہیں کھود سکتے کمزوری اور بڑھ جائے گی۔ (3)تدفین کرنے والے اس سے بھی زیادہ ضروری کام مثلاً جنگی حالات میں جہاد وغیرہ میں مصروف ہوں تو اس طرح کے ضرورت کے مواقع پرمجبوراً ایک ہی قبر میں ایک سے زیادہ میّتوں کو دفن کر سکتے ہیں۔

     اس کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ جانبِ قبلہ میّتوں میں جو افضل ہو اس کو رکھیں گے  جب کہ سب مرد یا سب عورتیں ہوں اور مرد عورت بچوں کی میّتیں ہوں تو جانبِ قبلہ مرد کو رکھیں گے پھر لڑکے کو پھر عورت کو پھر نابالغہ بچّی کواورہر ایک کے درمیان مٹی وغیرہ سے آڑ کردیں گے۔

     البتہ اپنے مرحوم عزیز کی قبر یا اس کے برابر والی کسی مسلمان کی قبر کو  کھود کر اس میں نئے مردے کی تدفین کرنا جائز نہیں کہ کسی بھی مسلمان کی قبر کو بلا ضَرورتِ شَرْعیہ کھولنا حرام ہے۔ اور اَقرِبایعنی رشتے داروں کی قبروں کا ایک جگہ ہونا کوئی ضرورتِ شرعیہ نہیں کہ جس کے باعث کسی مسلمان کی قبر کھولنا جائز ہوجائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم