Ek Sath Do Alag Alag Barsiyon Ka Hukum

ایک ساتھ دو الگ الگ برسیوں کا حکم

مجیب:مولانا سعید صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد کی پہلی برسی اور میری ساس کی دوسری برسی ایک ہی مہینے میں آرہی ہیں۔ تو کیا میں ایک ہی وقت، ایک ہی جگہ پر دونوں کی فاتحہ خوانی اور برسی کا انعقاد کر سکتا ہوں؟

سائل:محمد رفیق راجہ (نشتر روڈ،باب المدینہ کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     جی ہاں!آپ اپنے والد اور ساس کی برسی ایک ساتھ  کر سکتے ہیں، اس میں کوئی حَرَج نہیں کیونکہ یہ ایصالِ ثواب کی صورت ہے اس میں کسی وقت یا عمل کی تعیین نہیں ہوتی بغیر کسی قید کے جب بھی چاہیں کوئی نیک عمل کر کے میت کو ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں مگر جب برسی کا دن جس کا نہ ہوگا تو اسے اس کی برسی حقیقتاً نہ کہا جائے گا عرف میں معمولی فرق سے اس قسم کا اطلاق کر دیا جاتا ہے، اس میں حرج نہیں اور اگر ایک ساتھ چند ناموں سے ایصالِ ثواب کیا جائے تو ہر ایک کو پورا پورا ثواب بھی ملتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم