میت کو غسل و کفن دینے کے بعد کفن ناپاک ہوجائے ، تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Nor-11705

تاریخ اجراء:15ذوالحجۃ الحرام 1442ھ/26جولائی2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارےمیں کہ ایک شخص زخمی حالت میں انتقال کرگیا،غسلِ میت دیتے وقت کسی طرح زخم سے نکلنےوالاخون روک دیا گیا،غسل سے قبل خون بھی صاف کردیا ، پھرمسنون طریقہ کے مطابق میت کی تکفین بھی کردی،اس دوران خون نہیں نکلا ، کچھ دیر بعد تک بھی خون نہیں نکلا،لوگوں کو میت کا چہرہ دکھایاگیا پھر جب میت کو گھرسےجنازہ گاہ لے جایا گیا،جب نمازِ جنازہ پڑھی جانے لگی تومیت کے کفن پر نظر پڑی کہ زخم والے حصے کی طرف والاکفن خون سے لال ہوگیا ہے،اس پرکسی نے کہا کہ نمازِ جنازہ کے لئے میت کا کفن بھی پاک ہونا ضروری ہے لہذا کفن پاک کیے بغیرنمازِ جنازہ نہیں پڑھ سکتے ، مگر امام صاحب نے پھر بھی نمازِ جنازہ پڑھا دی اورمیت کی تدفین کردی گئی۔پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت میں کفن کو پاک کرنا ضروری تھا یا نہیں؟نیز نمازِ جنازہ درست ہوئی یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں نمازِ جنازہ درست ادا ہوئی اور غسلِ میت اورمردے کی تکفین کے بعد خون نکلنے کےسبب کفن کو پاک کر کے نمازِ جنازہ پڑھنا ضروری نہیں تھا۔

    مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ نمازِ جنازہ درست ادا ہونے کے لیے میت سے متعلق ایک شرط یہ بھی ہے کہ میت کا بدن اور کفن پاک ہو،بدن پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے غسل دیا گیا ہو یا غسل نا ممکن ہونے کی صورت میں تیمم کرایا گیا ہواور میت کی تکفین سے قبل اگرمیت کے بدن سے نجاست نکلی ہوتو دھو دی جائے اورکفن پہنانے کےبعدنکلی تو دھونے کی حاجت نہیں اور کفن پاک ہونے کا یہ مطلب ہے کہ پاک کفن پہنایا جائے اور بعد میں اگر نجاست خارج ہوئی اور کفن آلودہ ہوا تو حرج نہیں،چونکہ پوچھی گئی صورت میں میت کو غسل دینے اور کفن پہنانے کے بعد زخم سے خون نکلا ہےاور اس خون سے کفن آلودہ ہوگیا ، تو اب کفن کوپاک کرنے کی ضرورت نہیں اور جب کفن کو پاک کرنے کی ضرورت نہیں تو بغیر پاک کیے جو نمازِ جنازہ ادا کی گئی،وہ درست واقع ہوئی۔

    فتاوی شامی میں ہے:”اذا تنجس الكفن بنجاسة الميت لا يضرّ دفعاً للحرج بخلاف الكفن المتنجس ابتداء وكذا لو تنجس بدنه بما خرج منه ان كان قبل ان يكفن غسل وبعده لا كما قدمناه فی الغسل“یعنی میت کی نجاست سے کفن ناپاک ہو گیا تو دفع حرج کی بنا پر مضر نہیں برخلاف ابتدا میں ہی ناپاک ہوجانے والے کفن کے ، یونہی اگر میت کا بدن نجاست نکلنے سے ناپاک ہو گیا ، اگر کفن پہنانے سے پہلے نجس ہوا تو دھو دیا جائے اور اس کے بعد نجس ہوا تو نہیں جیسا کہ پہلے غسل کے بیان میں گزر چکا ۔

(ردّ المحتارمعہ الدرّ المختار،ج03،ص122،مطبوعہ کوئٹہ)

    صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتےہیں :”میّت کے بدن و کفن کا پاک ہونا۔ بدن پاک ہونے سے یہ مراد ہے کہ اسے غسل دیا گیا ہو یا غسل نا ممکن ہونے کی صورت میں تیمم کرایا گیا ہو اور کفن پہنانے سے پیشتر اسکے بدن سے نجاست نکلی تو دھو ڈالی جائے اور بعد میں خارج ہوئی تو دھونے کی حاجت نہیں اور کفن پاک ہونے کا یہ مطلب ہے کہ پاک کفن پہنایا جائے اور بعد میں اگر نجاست خارج ہوئی اور کفن آلودہ ہوا ، تو حرج نہیں۔“

        (بھار شریعت،ج1،حصہ4،ص827،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم