ایک بیٹے نے جنازہ پڑھ لیا اور بقیہ بیٹوں نے نہیں تو کیا وہ دوبارہ پڑھ سکتے ہیں؟

مجیب:مفتی ہاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-10501

تاریخ اجراء:19رجب المرجب 1442 ھ/04مارچ2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے  بارے میں کہ زیدکاانتقال ہوا،اس کاوالداس سے پہلے ہی فوت ہوگیاتھا،زید کے چاربیتےہیں،اس کے بڑے بیٹے نے نمازہ جنازہ اداکرلی ،بقیہ تین چھوٹے بیٹوں نےزیدکی نمازجنازہ  نہیں پڑھی اورنہ ہی جنازہ کی نمازان تینوں بیٹوں کی اجازت سے قائم کی گئی تھی ۔اس صورت میں بقیہ بیٹے دوبارہ جنازہ پڑھ یاپڑھواسکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جب میت کاوالدنہ ہوتوبیٹے اس کے ولی بنتے ہیں اورشرعی اعتبارسے سب بیٹےایک ہی درجہ کےولی ہیں اورہم درجہ اولیاء میں سے کوئی بھی نمازجنازہ پڑھ لے توبقیہ اولیاء جنازے کی نمازکااعادہ نہیں کرسکتے، لہذاجب ایک بیٹے نے نمازجنازہ پڑھ لی توبقیہ بیٹےبھی دوبارہ نہیں پڑھ سکتے، کیونکہ مذکورہ صورت میں  نمازجنازہ کی تکرارجائزنہیں ہے ۔

    بحرالرائق،درمختار،الاختیاروغیرہ میں ہے:’’واللفظ للھدایہ:’’ان صلی غیرالولی والسلطان اعادالولی ان شاء لان الحق للاولیاء وان صلی الولی لم یجز لاحدٍ ان یصلی بعدہ لان الفرض یتادی بالاول والتنفل بھا غیر مشروع ولھذا رأینا الناس ترکوامن اٰخرھم الصلٰوۃ علی قبرالنبی صلی ﷲتعالٰی علیہ وسلم وھوالیوم کماوضع“یعنی اگر ولی وحاکم اسلام کے سوا اور لوگ نمازِجنازہ پڑھ لیں تو ولی کو اعادہ کا اختیارہے، کیونکہ حق ،اولیاء کاہے اور اگر ولی پڑھ چکاتواب کسی کوجائز نہیں کہ وہ اس کےبعدنمازجنازہ ادا کرے کیونکہ فرض تو پہلی نمازسےاداہوچکااوریہ نمازبطورنفل پڑھنی مشروع نہیں ولہذا ہم دیکھتے ہیں کہ تمام جہان کےمسلمانوں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار اقدس پر نماز چھوڑدی، حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے جس دن قبر مبارک میں رکھے گئے تھے۔

(البنایہ فی شرح الھدایہ،جلد3،صفحہ221،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

    فتاوی ہندیہ میں ہے:’’لو صلی علیہ الولی وللمیت أولیاء أخر بمنزلتہ لیس لھم أن یعیدوا، کذافی الجوھرۃالنیرۃ‘‘یعنی اگرمیت پرایک ولی نے نمازپڑھ لی اورمیت کے اسی درجہ کے اوراولیابھی ہوں توان کے لیےنمازجنازہ کا اعادہ جائز نہیں ،ایسا ہی جوہرہ نیرہ میں ہے ۔

(فتاوی ھندیہ ،جلد1،صفحہ164،دارالفکر،بیروت)

    سیدی اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشادفرماتے ہیں:’’مذہب مہذّب حنفی میں جبکہ ولی نماز پڑھ چکا یا اس کےاذن سے ایک بار نماز ہوچکی، تو اب دوسروں کو مطلقاً جائز نہیں، نہ ان کو جو پڑھ چکے نہ اُن کو جو باقی رہے۔ائمۂ حنفیہ کا اس پر اجماع ہے، جو اس کا خلاف کرے مذہبِ حنفی کا مخالف ہے۔تمام کُتبِ مذہب متون وشروح وفتاوٰی اس کی تصریحات سے گونج رہی ہیں ۔اس مسئلہ کی پوری تحقیق وتنقیح فقیرکےرسالہ’’النھی الحاجزعن تکرارصلٰوۃالجنائز‘‘میں بفضلہ بروجہ اتم ہوچکی ہے۔‘‘

(فتاوٰی رضویہ ،جلد9،صفحہ318،رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

    بہارشریعت میں ہے:’’ولی کے سوا کسی ایسے نے نماز پڑھائی جو ولی پر مقدم نہ ہو اورولی نے اُسے اجازت بھی نہ دی تھی، تو اگر ولی نماز میں شریک نہ ہوا ،تو نماز کا اعادہ کر سکتا ہے اور اگر مردہ دفن ہوگیا ہے تو قبر پر نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر وہ ولی پر مقدم ہے، جیسے بادشاہ و قاضی و امام محلہ کہ ولی سے افضل ہو تو اب ولی نماز کا اعادہ نہیں کر سکتا اور اگرایک ولی نے نماز پڑھا دی تو دوسرے اولیاء اعادہ نہیں کر سکتے اور ہر صورت اعادہ میں جو شخص پہلی نماز میں شریک نہ تھا، وہ ولی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے اور جو شخص شریک تھا وہ ولی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا ہے کہ جنازہ کی دو مرتبہ نماز ناجائز ہے ،سوا اس صورت کے کہ غیر ولی نے بغیر اذن ولی پڑھائی۔‘‘

(بھارشریعت،جلد1،حصہ4،صفحہ 838،مکتبہ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم