قریبی قبرستان میں رشتہ دار کی پرانی قبر میں دفن کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

فتوی نمبر: Faj-5526

تاریخ اجراء:28ذیقعدہ1440ھ/01اگست2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے  دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگرقریبی قبرستان میں جہاں پر پہلے سے عزیز واقارب دفن ہیں،وہاں مزید مردہ دفن کرنے کی جگہ نہ ہو،بلکہ آبادی سے دور  جو قبرستان ہے، اس میں  جگہ موجود ہو، تو کیا ایسا کرنا ، جائز ہے  کہ قریبی قبرستان میں کسی عزیز  کی کافی پُرانی قبر  کو کھود کر کسی عزیز یا اجبنی کو اس میں دفن کر دیا جائے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پرانی قبر کھود کر دوسرا مردہ اس میں  دفن کرنا ، میت کی بے حرمتی ،ناجائز وگناہ ہے، یہ عذر کہ  پرانے قبرستان میں آباء واجداد دفن  ہیں، لہذا جو بھی رشتہ دار فوت ہوگا اس کو پرانے قبرستان میں ہی دفن کیا جائے گا،قابل قبول نہیں، اس عذر کی بِناء پر کسی کی قبر کھودنا، جائز نہیں ہوگا۔تمام ہی مسلمانوں پر لازم ہے  کسی بھی پرانی قبر کو کھود کر میت کی بے حرمتی نہ کریں ، اپنے مردوں کو دور والے قبرستان میں ہی دفن کریں۔

    تاتارخانیہ میں ہے:” واذا صار المیت ترابا فی القبر یکرہ دفن غیرہ لان الحرمۃ باقیۃ “تر جمہ:میت قبر میں مٹی ہی کیوں نہ ہو جائے  تب بھی(بلاضرورت) اس میں دوسری میت کو دفن کرنا مکروہ ہے، کیونکہ پہلی میت کی حرمت اب بھی باقی ہے ۔

(فتاوی تاتارخانیہ، جلد2،صفحہ130، مطبوعہ کراچی)

    گورکنوں کو علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداء في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلا عن كون ذلك ونحوه مبيحا للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلاء مع ما فيه من هتك حرمة الميت الاول وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك“ترجمہ :او ر وہ جو جاہل گورکنوں کا کام ہے یعنی  جن قبروں کےلوگ(مردے)فنا نہیں ہوئے اس کو کھودنا اور ان قبروں میں اجانب (دوسرے مردے)داخل کرنا،یہ صریح معصیت ہےاور قریبی رشتہ دار کے ساتھ کسی کو دفن کرنے کا ارادہ یادوسرے  قبرستان میں جگہ ہونے کے باوجود پرانے قبرستان میں تنگی کی وجہ سے ایک ہی قبر میں دوسرے کی تدفین ،اگرچہ کسی تبرک کی نیت کی وجہ سے ہو، تبرک تو  دور کی بات یہ کام تو ہرگز مباح نہیں ۔لہذا یہ  ایسی ضرورتیں  نہیں ہیں جو دو یا دو سے زائد میتوں کو ایک قبر میں ابتداءًجمع کرنے کو مباح قرار دینے والی ہوں۔(جب ان وجوہ کی بِنا پر ابتداءً ایک قبر میں ایک سے زائد مردے دفن کرنے کی اجازت نہیں ) تو ان یا ان جیسی وجوہات کی بنا پر پرانی قبر کھودنا اور دوسرےمُردے  کو پہلے کے خاک ہونے سے پہلے قبر میں داخل کرنا ،کیسے حلال ہوسکتا ہے؟ حالانکہ اس میں پہلی میّت کی حُرمت کی پامالی  اور اس کے اعضاء کو متفرق کرنا ہے ۔ تو خبردار اس حرکت سے  بچو۔   

   (ردالمحتار مع الدرالمختار  ، جلد3، صفحہ138، مطبوعہ ملتان)

    اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاه امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سوال ہوا:’’جس گورستان کی بوجہ کمی زمین وکثرتِ دفنِ مُردگان سے یہ حالت ہو گئی کہ نئی قبریں کھودنے پر کثرت سے مردوں کی ہڈیاں نکلتی ہوں اور بصورت موجود رہنے دوسرے گورستان متصل اس کے جو کہ ان سب شکایتوں سے پاک و صاف ہو اس کو چھوڑ کر خواہ مخواہ صرف بخیال مدفن ہونے آباء واجداد اپنے ایسے گورستان میں دوسرے مردوں کی ہڈیاں اکھاڑکر مردہ دفن کرنا  شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟‘‘ آپ جوابا ًارشاد فرماتے ہیں:”صورتِ مذکورہ محض ناجائز وحرام ہے ۔“

 (فتاوی رضویہ، جلد9،صفحہ385، رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

    مزید فرماتے ہیں:”میت اگرچہ خاک ہوگیا ہو، بلا ضرورت شدیدہ اس کی قبر کھود کر دوسرے کادفن کرنا، جائز نہیں ۔“

(فتاوی رضویہ، جلد9،صفحہ390، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

    مفتی اعظم پاکستان مفتی وقارالدین قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”لیکن جب دوسرا قبر ستان موجود ہے ، اس میں جگہ بھی موجود ہو، اگرچہ دور ہو، تو وہیں دفن کیا جائے گا۔“

(وقارالفتاوی، جلد2، صفحہ376، بزم وقارالدین،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم