کیا قیامت کے دن ہر قبر سے 70 مردے نکلیں گے اور پرانی قبر میں تدفین کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7149

تاریخ اجراء:07جمادی الاولیٰ1442ھ/23 دسمبر2020

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےکرام اس مسئلے کےبارےمیں کہ بعض قبرستانوں میں ایساہوتاہےکہ کسی میت کوقبرمیں دفن کرنےکےکچھ عرصہ بعدگورکن اس قبرکوکھول کراس میں کوئی نیامُردہ دفن کردیتےہیں اوراسی طرح اس قبرمیں مزیدمُردوں کی تدفین کاسلسلہ چلتارہتاہےاورمنع کرنےپریہ کہتےہیں کہ بروزِقیامت ایک قبرسے70مردےنکلیں گے،اس حوالےسےرہنمائی فرمادیں کہ ایساکرناکیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    کسی مسلمان کودفن کردینےکےبعدبلااجازتِ شرعی اس کی قبرکوکھولنااوراس میں کسی دوسرےمردےکودفن کردیناشدیدناجائزوحرام ہےکہ جب کسی میت کودفن کردیاجائے،تواب وہ رازِالہی ہے کہ خدا نے اس کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ہے ، جزا کا یا سزا؟اوراس کی قبر کو کھولنا، گویا اللہ کےرازکوکھولنےکےمترادف ہےاوراس میں میت کی شدیدتوہین بھی ہے،بلکہ حدیث پاک میں قبرپربیٹھنےاوراس پرپاؤں رکھنےسےبھی منع فرمایا گیاکہ اس میں میت کوایذاپہنچاناہےاورقبرکوکھودناتواس سےکہیں زیادہ شدیداورسخت ہےاورقبراگرچہ بہت پرانی ہواورمیت بالکل خاک ہوگئی ہو،تب بھی اس کی حرمت(عزت وتکریم) باقی رہتی ہے۔

    اوربروزِقیامت ایک قبرسےسترمردےنکلنےوالی بات عوام میں تومشہورہےمگرایسی کوئی روایت کسی مستندکتاب میں نظرسےنہیں گزری اوراگربالفرض ایسی کوئی روایت ہو،توبھی اس سےکسی قبرکوکھولنااوراس میں کسی اورمیت کودفن کرنےکاجوازثابت نہیں ہوگابلکہ یہ آئندہ پیش آنےوالےواقعات کی خبرہوگی،جیسےاحادیث میں قیامت کی نشانیوں میں یہ بھی بیان کیاگیاہےکہ گانےباجےکی کثرت ہوگی،مگراس سےیہ ہرگز ثابت نہیں ہوسکتاکہ معاذاللہ گانےباجےکی اجازت ہے۔

قبرپربیٹھنےکی ممانعت کےمتعلق مسندامام احمدبن حنبل میں ہے”عن عمارةبن حزم،قال رآنی رسول الله صلى الله عليه وسلم جالساعلى قبرفقال انزل من القبرلاتؤذی صاحب القبر“ترجمہ:حضرت عمارہ بن حزم رضی اللہ عنہ سےروایت ہےوہ کہتےہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک قبرپربیٹھےدیکھا،توارشادفرمایا:قبرسےاترجاؤاورقبروالےکواذیت نہ دو۔

(مسندامام احمدبن حنبل،مسندعمارۃبن حزم،جلد39،صفحہ475،مطبوعہ بیروت)

    قبرکوکھولنےکےحرام ہونےکےبارےمیں بدائع الصنائع میں ہے”النبش حرام حقالله تعالى“ترجمہ:قبرکھولنااللہ تعالی کےحق کی وجہ سےحرام ہے۔

 (بدائع الصنائع،باب صلاۃالجنازۃ،فصل فی بیان ماتصح بہ،جلد2،صفحہ55،مطبوعہ کوئٹہ)

    تدفین کےبعدقبرکھولنےکےبارےمیں حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے”ولايباح نبشه بعدالدفن اصلا“ترجمہ:دفن کے بعدقبرکھولنابالکل جائزنہیں ہے۔

 (حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح،باب احکام الجنائز،جلد1،صفحہ615،مطبوعہ کوئٹہ)

اسی بارےمیں فتاوی رضویہ میں ہے”نبش(قبرکھولنا)حرام،حرام،سخت حرام اورمیت کی اشدتوہین وہتک سِرّرب العٰلمین ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ405،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

     قبرکھودکراس میں دوسری میت دفن کرنےکےبارےمیں فتاوی تاتارخانیہ میں ہے”واذاصارالمیت ترابافی القبریکرہ دفن غیرہ فی قبرہ؛لان الحرمۃباقیۃ“ترجمہ:اوراگرمیت بالکل خاک ہوجائے،تب بھی اس کی قبرمیں کسی دوسرےکودفن کرنامکروہ ہے،کیونکہ (میت کی)حرمت اب بھی باقی ہے۔

 (فتاوی تاتارخانیہ،کتاب الجنائز،باب القبروالدفن،جلد3،صفحہ75،مطبوعہ کوئٹہ)

    اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمن سےسوال ہواکہ جس قبرستان میں کثرت سےتدفین ہونےکےباعث اس قدرقبریں ہوں کہ جوجگہ کھودیں،وہاں سےہڈیاں نکلیں،توکیااس صورت میں وہاں کسی  کودفن کرنا، جائزہے؟(ملخصاً)توجواباًارشادفرمایا:”اس قبرستان میں دفن کرنامحض ناجائزوحرام ہے۔‘‘

 (فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ386،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    مزیدارشادفرماتےہیں:”میت اگرچہ خاک ہوگیاہو،بلاضرورتِ شدیداس کی قبرکھودکردوسرےکادفن کرناجائزنہیں۔“

(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ390،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم