کیا میت کو غسل دینے کے بعد چھو سکتے ہیں ؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

فتوی نمبر: Nor-11105

تاریخ اجراء:27ربیع الاول1442ھ/14نومبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے  دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد محترم کاانتقال  ہوا،تو غسل ہوجانے کے بعد آخری دیدارکرواتے ہوئےمیری بڑی بہن نے فرط محبت میں چہرے پر ہاتھ لگاکرمحبت کااظہارکرناچاہا،تو اس پر خاندان کے بعض افراد نے بہن کو برا بھلا کہا اوربعض نے یہ بھی کہاکہ غسل میت کے بعدبلاحائل چھوناسخت گناہ ہے۔برائے کرم  یہ رہنمائی فرمادیں کہ اس بارے میں شریعت کا کیاحکم ہے ؟ کیاواقعی غسلِ میت کے بعد چھوناگناہ ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    آپ کی بہن کا اپنے والدمرحوم کے انتقال کے بعد فرطِ محبت سے ان کے  چہرے پر ہاتھ لگانابلاشبہ جائزفعل تھا ۔یادرہے اگرکسی ناجائزفعل کاارتکاب کیے بغیر انتقال کے بعدمیت کوچھواجائےیابوسہ لیاجائے،تو شرعاً اس کی کوئی ممانعت نہیں،اگرچہ غسل میت  ہوچکاہویاغسل میت کا سلسلہ باقی ہو،بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا فرطِ محبت سے میت کی پیشانی چومنا حدیث پاک سے ثابت ہے اور فقہائے کرام کی واضح صراحتیں موجودہیں کہ انتقال سے مسلمان کی میت صرف حکمی طورپر ناپاک ہوتی ہے،اس لیے  میت کو غسل دیے جانے  سے پہلے چھونایابوسہ لینابھی جائزہے،نیز غسل کے بعد  بھی میت کو چھونے کی کوئی ممانعت نہیں ،بلکہ فقہائے کرام نے واضح طورپر فرمایاکہ غسل میت کے بعد شہادت کی انگلی سے میت کی پیشانی پر بسم اللہ شریف لکھ دی جائے ۔لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ کی بہن کےاس  جائزفعل پر جن افراد نے بُرابھلاکہا،وہ غلطی پرہیں،انہیں چاہیے کہ اس جائزفعل کو گناہ کہنے سے توبہ کریں اورآپ کی بہن کو بلاوجہ بُرابھلاکہنے کی وجہ سے ان سے معافی بھی مانگیں۔

    ابوداؤد شریف میں ہے :’’عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقبل عثمان بن مظعون وھو میت حتی رایت الدموع تسیل“ یعنی  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عثمان بن مظعون کابوسہ لیتے ہوئے دیکھا،جبکہ ان کاانتقال ہوچکاتھااور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہہ رہے تھے ۔

 (سنن ابی داؤد، جلد2،صفحہ 98،مطبوعہ لاھور)

مرقاۃ  المفاتیح میں  اس روایت کو نقل کرنےکے بعد فرمایا:’’یعلم من ھذا ان تقبیل المسلم بعدالموت والبکاء علیہ جائز“ یعنی اس روایت سے معلوم ہواکہ موت کے بعدمسلمان  میت  کا بوسہ لینااور اس پر (بغیر آوازکے ) روناجائزہے ۔

(مرقاۃ المفاتیح ، جلد4،صفحہ16،مطبوعہ ملتان)

    بخاری شریف میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے احوال بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’دخل علی عائشۃ رضی اللہ عنھا فتیمم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھومغشی بثوب حبرۃ فکشف عن وجھہ ثم اکب علیہ فقبلہ وبکی ، ثم قال: بابی انت وامی“ یعنی سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے حجرے میں داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قصدکیا ،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو حبرہ چادراوڑھائی گئی تھی ، آپ رضی اللہ عنہ  نے چہرہ مبارک  سے چادرہٹائی ، پھرجھکے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیااور  روئے  پھر کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔

   (صحیح البخاری ، جلد1،صفحہ166،مطبوعہ کراچی )

    جب سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیااس وقت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو غسل نہیں دیاگیاتھا جیساکہ عمدۃ القاری میں ہے :’’وھومسجی ببردحبرۃ  ولم یکن حینئذغسل ، فضلا عن ان یکون مدرجا فی الکفن“ یعنی  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حبرہ چادر سے ڈھک دیاگیاتھا اور اس وقت غسل بھی نہیں ہواتھا،چہ جائیکہ کفن میں داخل کردیاگیاہو۔

(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ، جلد6،صفحہ18،مطبوعہ ملتان)

    نورالایضاح میں ہے :’’ولاباس بتقبیل المیت للمحبۃ والتبرک تودیعاخالصۃ عن محظور“ یعنی میت کا محبت ، برکت اور رخصت وغیرہ کرنے کے مقصد سے بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں،جبکہ ممنوع شرعی کام سے بچ کر ایساکیاجائے۔

(نورالایضاح مع حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ، صفحہ573،مطبوعہ کراچی)

    حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:’’اختلفوا فی نجاسۃ المیت فقیل نجاسۃ خبث وقیل حدث ویشھدللثانی مارویناہ من تقبیلہ صلی اللہ علیہ وسلم عثمان بن مظعون وھومیت قبل الغسل، اذلو کان نجسا لما وضع فاہ الشریف علی جسدہ“ یعنی میت کی نجاست میں اختلاف ہے ، ایک قول  یہ کیاگیاکہ گندگی کی وجہ سے  ناپاک ہے اور ایک قول یہ کیاگیاکہ حدث کی وجہ سے ناپاک  ہے ،دوسرے قول کی تائیدوہ حدیث ہے،جسے ہم نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا ان کے انتقال کے بعد غسل سے پہلے بوسہ لیا، کیونکہ اگر مرنے سے ناپاک ہوجاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دَہَن اقدس ان کے جسم پرنہ لگاتے۔

 (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ، جلد2،صفحہ198،مکتبہ غوثیہ ، کراچی)

    دوسرے قول کی ترجیح بیان کرتے ہوئے جدالممتارمیں فرمایا:’’فثبت وللہ الحمد ان الحدیث ینفی تنجس المسلم بالموت فوجب کما قال المحققان ترجیح ان غسلہ للحدث وقدقال فی البحر انہ الاصح“یعنی بحمداللہ یہ ثابت ہوگیاکہ حدیث پاک سے موت کی وجہ سے مسلمان کے نجس ہونے کی نفی ہوتی ہے ،تو دونوں محققوں کے فرمان کے مطابق اس کی ترجیح ضروری ہے کہ غسل میت حدث کی وجہ سے ہے اوربحرمیں فرمایایہی اصح ہے ۔

 (جدالممتار،جلد3،صفحہ645،مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

    غسل میت  کے بعد بھی میت کو چھونے میں حرج نہیں،جیساکہ ردالمحتارمیں ہے :’’ یکتب علی جبھۃ المیت بغیر مداد بالاصبع المسبحۃ ۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ وعلی الصدر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، وذلک بعد الغسل قبل التکفین“ یعنی میت کی پیشانی پر بغیرروشنائی کےکلمہ کی انگلی سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھیں اور سینے پر لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ لکھیں  اور یہ لکھنا غسل کے بعد کفن پہنانے سے پہلے ہو۔

                                                     (ردالمحتار مع الدر المختار،جلد3،صفحہ186،مطبوعہ کوئٹہ)

    ذو رحم محرم  کی میت کوبلاحائل چھونا،جائزہے،جیساکہ حاشیہ شرنبلالی علی دررالحکام شرح غررالاحکام میں ہے:’’رجل ذو رحم محرم یمسھا  بلاخرقۃ“ یعنی ذی رحم محرم خرقہ(کپڑا وغیرہ حائل) کے بغیربھی چھوسکتاہے۔

  (حاشیہ شرنبلالی علی دررالحکام شرح غررالاحکام ،جزو1،صفحہ160،مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم