ایک سے زائد مرتبہ نمازجنازہ پڑھنا

مجیب:   محمد سجاد  عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web:07

تاریخ اجراء: 09ربیع الثانی 1442 ھ/25نومبر2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

      کیافرماتے ہیں  علمائے کرام اس مسئلے  کے بارے میں کہ ایک شخص کا انتقال ہوا   ،اس کی نمازجنازہ ایک مرتبہ شہر میں اد اکی گئی اور دوسری  مرتبہ جب میت گاؤں لے کر گئے وہاں اد اکی گئی۔  پہلی مرتبہ  میں ایک بیٹا شریک ہوا اور دوسری مرتبہ میں دوسرا بیٹا شریک ہوا ، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ   اگر ولی ِ میت نے  ایک بار نماز جنازہ ادا  کرلی ہو   تو دوسری بار دوسرا  ولی یا کوئی اور شخص نمازجنازہ پڑھ سکتاہے یا نہیں شرعی اعتبار سے رہنمائی فرمائیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     میت کا ایک  ولی جب نماز جنازہ اد ا کرلے  تواس کے بعدکسی دوسرے ولی یا شخص کودوبارہ  نماز جنازہ ادا کرنا جائز نہیں کیونکہ فقہائے احناف کے  نزدیک     نماز جنازہ کی تکرار مطلقا ناجائز ہے سوائےایک صورت کے،وہ یہ کہ جب کوئی ایسا شخص جسے  جنازہ پڑھانے کا حق حاصل نہیں  ولی کی اجازت کے بغیر نماز جنازہ پڑھا دے اور کسی ولی نے  نماز جنازہ ادا نہ کی ہو تو میت کا ولی دوبارہ نماز  ادا کرسکتاہےکیونکہ یہ اس کا حق ہے  اور دوسرے جنازے میں فقط وہی افراد شریک ہوں گے  جو پہلے جنازے  میں شریک نہ تھے لہذا صورت مسئولہ میں  میت کے ایک  بیٹےنے جب نماز جناز ہ ادا  کرلی تھی تو دوسرے بیٹے کاگاؤں  جاکر وہاں دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا یا پڑھوانا،  ناجائز تھا ۔

     البحرالرائق،درمختار ،الاختیار وغیرہ میں ہے واللفظ للھدایہ :’’ ان صلی غیرالولی والسلطان اعادالولی ان شاء لان الحق للاولیاء وان صلی الولی لم یجز لاحدٍ ان یصلی بعدہ لان الفرض یتادی بالاول والتنفل بہا غیر مشروع ولہذا رأینا الناس ترکوامن اٰخرھم الصلٰوۃ علی قبرالنبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم وھوالیوم کماوضع“یعنی اگر ولی وحاکم اسلام کے سوا اور لوگ نمازِ جنازہ پڑھ لیں تو ولی کو اعادہ کا اختیارہے کیونکہ حق ،اولیاء کاہے اور اگر ولی پڑھ چکا تو اب کسی کو جائز نہیں کہ وہ اس کے بعد نماز جنازہ ادا کرے کیونکہ  فرض تو پہلی نماز سے اداہوچکا اوریہ نماز بطورنفل پڑھنی مشروع نہیں ولہذا ہم دیکھتے ہیں کہ تمام جہان کے مسلمانوں نےنبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کے مزار اقدس پر نماز چھوڑدی حالانکہ حضور آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے جس دن قبر مبارک میں رکھے گئے تھے۔‘‘

( البنایہ  فی شرح الھدایہ،  فصل فی الصّلٰوۃ علی المیت   ،جلد3،صفحہ478،مطبوعہ ملتان )

    فتاوی ہندیہ میں ہے:’’لو صلی علیہ الولی وللمیت أولیاء أخر بمنزلتہ لیس لہم أن یعیدوا، کذا فی الجوہرۃ النیرۃ‘‘یعنی

 اگرمیت پرایک ولی نے نماز پڑھ لی اورمیت کے اسی درجہ کے کئی اوراولیابھی ہوں تو ان کے لئے نمازجنازہ کا اعادہ جائز نہیں ،ایسا ہی جوہرہ نیرہ میں

ہے ۔ ‘‘ (فتاوی ہندیہ ،کتاب الصلوۃ ،الفصل الخامس فی الصلوۃ علی المیت،جلد1،صفحہ164،کوئٹہ )

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضاخان علیہ  الرحمۃ فتاوی رضویہ شریف میں  فرماتے ہیں :’’مذہب مہذّب حنفی میں جبکہ ولی نماز پڑھ چکا یا اس کے اذن سے ایک بار نماز ہوچکی(اگرچہ یونہی کہ دوسرے نے شروع کی، ولی شریک ہوگیا) تو اب دوسروں کو مطلقاً جائز نہیں، نہ ان کو جو پڑھ چکے نہ اُن کو جو باقی رہے۔ائمۂ حنفیہ کا اس پر اجماع ہے، جو اس کا خلاف کرے مذہبِ حنفی کا مخالف ہے۔تمام کُتبِ مذہب متون وشروح وفتاوٰی اس کی تصریحات سے گونج رہی ہیں ۔اس مسئلہ کی پوری تحقیق وتنقیح فقیر کے رسالہ النھی الحاجز عن تکرار صلٰوۃ الجنائز میں بفضلہ بروجہ اتم ہوچکی ہے۔ (فتاوٰی رضویہ،جلد9،صفحہ318،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

             بہارشریعت میں ہے:’’ولی کے سوا کسی ایسے نے نماز پڑھائی جو ولی پر مقدم نہ ہو اورولی نے اُسے اجازت بھی نہ دی تھی تو ا گر ولی نماز میں شریک نہ ہوا تو نماز کا اعادہ کر سکتا ہے اور اگر مردہ دفن ہوگیا ہے تو قبر پر نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر وہ ولی پر مقدم ہے جیسے بادشاہ و قاضی و امام محلہ کہ ولی سے افضل ہو تو اب ولی نماز کا اعادہ نہیں کر سکتا اور اگرایک ولی نے نماز پڑھا دی تو دوسرے اولیاء اعادہ نہیں کر سکتے اور ہر صورت اعادہ میں جو شخص پہلی نماز میں شریک نہ تھا وہ ولی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے اور جو شخص شریک تھا وہ ولی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا ہے کہ جنازہ کی دو مرتبہ نماز ناجائز ہے سوا اس صورت کے کہ غیر ولی نے بغیر اذن ولی پڑھائی ۔‘‘(بہارشریعت ،حصہ 4،صفحہ 838،مکتبہ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم