مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری
مدنی
فتوی نمبر: WAT-1831
تاریخ اجراء:28ذوالحجۃالحرام1444 ھ/17جولائی2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ہم جو صلاۃ و سلام وغیرہ پڑھتے ہیں
، تو اس میں لفظ یا ، کا
استعمال کرتے ہیں ، تو مجھے معلوم یہ کرنا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے
وصال کے بعد حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو لفظ( یا
)کے ذریعے پکارنا ، اس پر کیا کوئی دلیل ہے ، ایک
دوست مجھ سے دلیل مانگ رہا ہے ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ حضور سید
عالم صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کو لفظ (یا) سے ندا کرنا دور و نزدیک سے پکارنا جائز ہے، ان کی ظاہر ی زندگی
میں بھی اور وصال کے بعد بھی ہر طرح جائز اور باعث برکت
ہے۔اس کے جواز اور باعث برکت ہونے پر قرآن و احادیث و عمل صحابہ و
اولیائے کرام و ائمہ عظام کے عمل سے بے شمار روشن دلیلیں موجود ہیں ۔
ان روشن دلائل میں سے دو
دلیلیں ملاحظہ فرمائیں
:
(1)ہر
نمازی نماز میں جب التحیات پڑھتا ہے تو اس میں حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ، حاضر کے لفظ( یا )کے ساتھ سلام عرض کرتا ہے ، اور یہ طریقہ حضور سید
عالم صلی اللہ علیہ وسلم
کی ظاہری حیات سے لےکر صبح قیامت تک کے مسلمانوں کےلئے
مشروع ہے ، لہذا لفظ(یا ) کےساتھ
ندا کرنا بھی قیامت تک مشروع ، جائزو باعث برکت ہے ۔
اور
یہ حاضر کے الفاظ سے سلام کرنا محض حکایت کے طور پہ نہیں ، بلکہ
نمازی پر لازم ہے کہ جب التحیات میں حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم کی بارگاہ میں
سلام عرض کرنے لگے ، تو پہلے حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے
دل میں حاضر کرے ، اور تصور میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سامنے
گمان کرے پھر سلام پیش کرے ۔
(2)صحابہ کرام علیھم
الرضوان کے
دور میں بھی
حضور سید عالم صلی
اللہ علیہ وسلم کو لفظ (یا
)کے ذریعے ندا کی جاتی تھی اور اپنی حاجتیں
پوری ہونے کےلئے حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کا وسیلہ دےکر آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا
جاتا تھا۔
طبرانی
شریف میں ہے کہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ
کے دور خلافت میں
ایک شخص نے اپنی حاجت طلب کرتے ہوئے حضور سید عالم صلی
اللہ علیہ وسلم کو لفظ (یا )کیساتھ پکارا اور ندا کی تو
فورا اس کی حاجت پوری
ہوگئی ، طبرانی شریف کی مفصل روایت نیچے درج
کردی ہے ملاحظہ فرمالیں ۔
التحیات
میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں
سلام عرض کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر جاننا ہر نمازی پر لازم ہے ، چنانچہ اس کےمتعلق حجۃ الاسلام ا مام
غزالی رحمہ اللہ نے احیاء
العلوم میں کیا ایمان افروز عبارت لکھی ہے، فرماتے ہیں:” واحضر فی قلبک النبي صلي الله عليه وآله وسلم وشخصه
الکريم، وقُلْ : سَلَامٌ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ
بَرَکَاتُه. وليصدق أملک في أنه يبلغه و يرد عليک ما هو أوفٰي منه۔“ترجمہ :(اے نمازی! پہلے) تو حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کریم
شخصیت اور ذاتِ مقدسہ کو اپنے دل میں حاضر کر پھر کہہ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ
اﷲِ وَ بَرَکَاتُه.
تیری امید اور آرزو اس معاملہ میں مبنی بر صدق و
اخلاص ہونی چاہیے کہ تیرا سلام آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچتا ہے اور آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم اس سے کامل تر جواب سے تجھے نوازتے ہیں۔“ (احیاء
العلوم ، جلد1، صفحہ 151، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ،
بیروت )
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی
اللہ عنہ کے دور خلافت میں
ایک شخص نے اپنی حاجت طلب کرتے ہوئے حضور سید عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کو لفظ (یا )کیساتھ پکارا اور ندا
کی ۔چنانچہ اس کے متعلق امام طبرانی رحمہ اللہ اپنی
کتاب " المعجم الصغیر "
میں تحریر فرماتے ہیں :” ان رجلا کان یختلف الی عثمان بن عفان
رضی اللہ تعالٰی عنہ فی حاجۃ لہ وکان عثمان لا
یلتفت الیہ ولا ینظر فی حاجتہ، فلقی عثمان بن
حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ , فشكا ذلك إليه , فقال له
عثمان بن حنيف:ائت المیضاۃ فتو ضا ثم ائت المسجد فصل فیہ
رکعتین ثم قال اللھم انی اسئلک و اتوجہ الیک بنبینا
نبی الرحمۃ یا محمد انی اتوجہ بل الٰی
ربی فیقضی حاجتی و تذکر حاجتک ورح الی، حتى اروح
معک، فانطلق الرجل فصنع ما قال لہ عثمان، ثم اتی باب عثمان رضی اللہ
تعالٰی عنہ فجاء البواب حتی اخذہ بیدہ فادخلہ علی
عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ فاجلسہ معہ علی
الطنفسۃ وقال حاجتک فذکر حاجتہ, فقضاها له , ثم قال له: ما ذکرت حاجتک
حتی کانت ھذہ الساعۃ وقال ماکان لک من جاجۃ، فأتنا ثم ان الرجل
خرج من عندہ فلقی عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی
عنہ فقال لہ جزاک اللہ خیرا بما کان ینظر فی حاجتی ولا یلتفت
الی حتی كلمته فی فقال عثمان بن حنیف رضی اللہ
تعالٰی عنہ واللہ ما كلمته ولکن شھدت رسول اللہ صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ، وأتاه ضرير , فشكا عليه ذهاب بصره ,
فقال: له النبي صلى الله عليه وآله وسلم: «أفتصبر؟» , فقال: يا رسول الله , إنه
ليس لي قائد , وقد شق علي , فقال له النبي صلى الله عليه وآله وسلم: «ائت
المیضاۃ فتوضا ثم صلی رکعتیں ثم ادع بھذہ الدعوات فقال
عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ فواللہ ما تفرقنا وطال
بنا الحدیث حتی دخل علینا الرجل کانہ لم یکن بہ ضرقط
۔“ترجمہ : ایک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی
اللہ عنہ کے پاس کسی ضرورت سے آتا جاتا تھا۔ حضرت عثمان رضی
اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے اور اس کی ضرورت پر غور نہ
فرماتے تھے۔ وہ شخص ،حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا
اور ان سے اس متعلق شکایت کی۔
عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : لوٹا لاؤ اور وضو کرو، اس
کے بعد مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر (یہ دعا) پڑھو : اے اﷲ!
میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری
طرف اپنے نبی محمد صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نبی رحمت کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد!
میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ میری
یہ حاجت پوری فرما دے۔ (یہ دعا پڑھ کر حضرت عثمان بن عفان
رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ) اور اپنی حاجت بیان کرو اور جاؤ یہاں
تک کہ میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں۔ پس وہ آدمی گیا
اور اس نے وہی کیا جو اسےحضرت عثمان نے اس سے فرمایا تھا۔
پھر وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا تو دربان نے
اس کا ہاتھ تھاما اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے پاس چٹائی پر بٹھایا اور
پوچھا : تیری حاجت کیا ہے؟ تو اس نے اپنی حاجت بیان
کی اور انہوں نے اسے پورا فرمادیا ۔ پھر انہوں نے اس سے کہا :
تو نے اپنی اس حاجت کے بارے میں آج تک کیوں نہ بتایا؟
آئندہ تمہاری جو بھی ضرورت ہو مجھے بیان کرو۔ پھر وہ آدمی
آپ رضی اللہ عنہ کے پاس سے چلا گیا اور عثمان بن حنیف سے ملا
اور ان سے کہا : اﷲ آپ کو بہتر جزا دے، اگر آپ میری حاجت میں
میری رہنمائی نہ فرماتے تو نہ تو وہ میری حاجت پر
غور کرتے اور نہ میری طرف متوجہ ہوتے۔ حضرت عثمان بن حنیف
رضی اللہ عنہ نے کہا : بخدا یہ میں نے نہیں کہا بلکہ میں
نے اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
دیکھا کہ ایک نابینا آدمی آیا اور آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے اپنی بینائی چلے جانے کا شکوہ کیا،
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا
: تو صبر کر۔ اس نے عرض کیا : اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ! میرا کوئی خادم نہیں اور مجھے بہت تکلیف ہوتی
ہے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
: لوٹا لے کر آؤ اور وضو کرو، پھردورکعتیں پڑھ کران کلمات کے ساتھ
دعامانگو۔پس حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : خدا کی
قسم! ہم لوگ نہ تو ابھی مجلس سے دور ہوئے اور نہ ہی ہمارے درمیان
لمبی گفتگو ہوئی، حتی کہ وہ آدمی ہمارے پاس (اس حالت میں)
آیا کہ گویا اسے کوئی اندھا پن ہی نہیں تھا۔‘‘(المعجم الصغیر ، جلد01، صفحہ 183، حدیث 508،
دار المعرفۃ ، بیروت )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟