Ya Ghous Al Madad Kehna Kaisa Hai ?

یا غوث المدد کہنا کیسا؟

مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری

مصدق:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: 5472-Pin

تاریخ اجراء: 04ربیع الثانی1439ھ/23دسمبر2017ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا جائز ہے یا نہیں ؟ یہ شرک تو نہیں ہے؟ نیز یا رسول اللہ مدد، یا علی مدد، یا غوث اعظم مدد کہنا جائز ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگنا اس وقت شرک ہے ، جب ان کو ذاتی طور پر بغیر کسی کی عطا کے مدد کرنے والا مان کر مدد مانگی جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اگر ان سے یہ سمجھ کر مدد مانگی جائے اور انہیں پکارا جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے دیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے ، تو یہ کچھ بھی نہیں دے سکتے ، تو یہ شرک نہیں ، بلکہ عین قرآن و حدیث کی منشا کے مطابق ہے اور مسلمان اسی اعتقاد کے ساتھ اللہ والوں سے استمداد کرتے ہیں ۔ یہ حقیقت میں انہیں وسیلہ بنانا ہے، مدد کرنے والی ذات تواللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کی ہے ، بلاواسطہ وہی مدد فرماتاہے اوران وسائل جلیلہ کو قبول کرکے بھی وہی مدد فرماتا ہے۔

   لہٰذا یارسول اللہ مدد، یا علی مدد اور یا غوث پاک مدد وغیرہ کہنا شرعاًجائز ہے اور اسے شرک وبدعت کہنے والے جاہل ہیں یا گمراہ ۔ غیر اللہ سے مدد طلب کرنا قرآنی آیات ،احادیث صحیحہ اور اقوال فقہاء ومحدثین سے ثابت ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : ﴿ قَالَ مَنْ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوۡنَ نَحْنُ اَنۡصَارُ اللہِ﴾ ترجمہ کنز الایمان:کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف ؟ حواریوں نے کہا : ہم دینِ خدا کے مددگارہیں ۔(پارہ3،سورہ آل عمران، آیت نمبر 52 )

   ارشاد پاک ہے : ﴿ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ترجمہ کنزالایمان: تمہارے دوست نہیں ، مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں ۔(پارہ 6، سورہ مآئدۃ ، آیت55)

   مزید ایک جگہ ارشاد ہے : ﴿  فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰىہُ وَ جِبْرِیۡلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ،  وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ ترجمہ کنز الایمان: تو بے شک اللہ ان کا مدد گارہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔ (پارہ28، سورۃ التحریم، آیت 4)

   امام نسائی، امام ترمذی، امام ابن ماجہ، امام حاکم، امام بیہقی، امام طبرانی نے اپنی اپنی کتابوں میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے نماز پڑھ کر ایک دعا کرنے کی تعلیم فرمائی ، جس میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ندا کرنے اور آپ سے مدد طلب کرنے کی صراحت موجود ہے۔ چنانچہ ابن ماجہ میں دعا کے یہ الفاظ ہیں :” أللھم انی أسئلک وأتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قد توجھت بک الیٰ ربی فی حاجتی ھٰذہ لتقضی لی أللھم فشفعہ فی قال أبو اسحاق ھٰذا حدیث صحیح “ ترجمہ : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرے نبی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نبی الرحمۃ کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیک وسلم ! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف اپنی اس حاجت کے بارے میں متوجہ ہوتا ہوں تا کہ آپ یہ حاجت میرے لیے پوری فرما دیں ۔ اے اللہ ! آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔ ابو اسحاق نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔(سنن ابن ماجہ ، صفحہ 99 ، مطبوعہ کراچی)

   یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں : ” یہ دعا قیامت تک کے مسلمانوں کو سکھائی گئی ہے ۔ اس میں ندا بھی ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے مدد بھی مانگی ہے۔“(جاء الحق ، حصہ1 ، صفحہ 178، مکتبہ اسلامیہ، لاهور)

   اسی طرح اما م طبرانی سیدنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور پر نورسید العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں :” اذا ضل أحدکم شیئا و أراد عونا و ھو بأرض لیس بھا أنیس فلیقل یا عباد اللہ أغیثونی یا عباد اللہ أغیثونی فان للہ عبادا لانراھم “ ترجمہ : جب تم میں سے کسی شخص کی کوئی چیز گم ہو جائے اور مدد مانگنا چاہے ، تو یو ں کہے :” اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو،اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو “  کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں ، جنہیں یہ نہیں دیکھتا۔(المعجم الکبیر، جلد17، ص117، مطبوعہ قاهرہ)

   تفسیر نعیمی میں ہے: ” انبیاء ،اولیاء سے مدد لینا حقیقت میں ربّ ہی سے امداد ہے، کیونکہ اس کی امدا د دو طرح کی ہے، بالواسطہ یا بلا واسطہ اللہ کے بندوں کی مدد ربّ کے فیضان کا واسطہ ہے،قرآن کریم نے غیر خدا سے امداد لینے کا خود حکم فرمایا ہے چنانچہ ارشاد فرماتا ہے: ﴿ اسْتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ  ﴾ مسلمانو! مدد لو صبرو نماز سے ۔صبر و نماز بھی غیر خدا ہیں ۔ “(تفسیر نعیمی ، جلد 1 ، صفحہ 65 )

   امام بخاری نے حضرت عبد الرحمٰن بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ذکر کی ہے، وہ فرماتے ہیں : ” خدرت رجل ابن عمر فقال لہ رجل: أذکر أحب الناس الیک فقال: یا محمد و فی روایۃ عند ابن السنی’’ یا محمداہ ‘‘ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا پاؤں سو گیا، تو ایک شخص نے آپ سے کہا کہ انہیں یاد کریں ، جو لوگوں میں سب سے زیادہ آپ کو محبوب ہیں ، تو آپ نے کہا: ’’ یا محمد ‘‘ اور ابن السنی کے نزدیک ایک روایت میں ’’ یا محمداہ ‘‘ کے الفاظ ہیں ۔(الادب المفرد ،ص 262،  مطبوعہ لاهور)

   امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃالرحمٰن بہجۃ الاسرار کے حوالے سے فرماتے ہیں :” حضور پر نور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :” من استغاث بی فی کربۃ کشفت عنہ ومن نادٰی باسمی فی شدۃ فرجت عنہ ومن توسل بی الی اللہ عزوجل فی حاجۃ قضیت لہ“ ( ترجمہ : ) جو کسی تکلیف میں مجھ سے فریاد کرے ، وہ تکلیف دفع ہواور جو کسی سختی میں میرا نام لے کر ندا کرے ، وہ سختی دور ہو اور جو کسی حاجت میں اللہ تعالیٰ کی طرف مجھ سے توسل کرے ، وہ حاجت پوری ہو۔ “(فتاوی رضویہ، جلد 29،ص556،رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

   ان دلائل سے ثابت ہوا کہ مصیبت کے وقت اللہ کے نیک بندوں کومدد کے لیے پکارنا ، جائز ہے اوراس کو شرک وبدعت کہنا درست نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم