Waseela Dena Kaha Se Sabit Hai?

وسیلہ دینا کہاں سے ثابت ہے؟

فتوی نمبر:WAT-248

تاریخ اجراء:10ربیع الآخر 1443ھ/16نومبر 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   وسیلہ دینا کہاں سے ثابت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اللہ پاک کی بارگاہ میں اللہ کے  نیک بندوں کا وسیلہ  پیش کرنا جائز ہے اور یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔

   اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَترجمہ کنزالایمان :اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اسکی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ (پارہ 6،سورۃالمائدۃ، آیت35)

   تفسیر روح البیان میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے:”واعلم ان الآیۃ الکریمۃ صرحت بالامر بابتغاء الوسیلۃ ولا بد منھا البتۃ فان الوصول الی اللہ تعالی لا یحصل الا بالوسیلۃ وھی علماء الحقیقۃ ومشایخ الطریقۃ“ترجمہ: تو جان لے کہ اس آیت میں وسیلہ ڈھونڈنے  کے حکم کی صراحت ہےاوربغیر وسیلہ تلاش کئے چارہ نہیں کیونکہ   بے شک اللہ عزوجل کی طرف رسائی بغیر وسیلہ کے ممکن ہی نہیں ہے اور وسیلہ علماء ِحق و مشائخ طریقت ہیں۔ (روح البیان ،سورۃ5،آیت35،جلد2 صفحہ388،دار الفکر،بیروت)

   حضورصلی اللہ علیہ وسلم نےایک صحابی کو دو رکعت پڑھنے کے بعد ایک دعا سیکھائی،جس دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پیش کیا گیا ہے ،بلکہ ایک روایت میں تو یہ الفاظ ہیں کہ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ میری حاجت پوری فرمائیں“جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ میری حاجت روائی کا سبب بنیں،چنانچہ جامع ترمذی میں ہے:” أن رجلا ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ادع الله أن يعافيني قال:إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فهو خير لك». قال: فادعه، قال: فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه ويدعو بهذا الدعاء:اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة، إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي، اللهم فشفعه في “ترجمہ:ایک شخص جس کی آنکھوں میں تکلیف تھی،نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ،اور عرض کی!آپ میرے لئے اللہ پاک سے دعا کریں کہ وہ مجھے شفا  دے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر تو چاہے تو دعا کردوں اور اگر چاہے تو صبر کر، یہ صبر تیرے لیے اچھا ہے، اس شخص نے عرض کی، حضور رب سے دعا کردیں، راوی کہتے ہیں تو حضور نے اسے حکم دیا کہ اچھی طرح وضو کرے اور یہ دعا مانگے،اے اللہ میں تجھ سےرحمت والے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے وسیلے سےسوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بے شک میں آپ کے وسیلے سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ میری حاجت پوری کی جائے، اے اللہ میرے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما۔ امام ابو اسحاق فرماتے  ہیں  یہ حدیث صحیح ہے ۔ (جامع ترمذی ،جلد 5، صفحہ569، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي،مصر)

   ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1014ھ)فرماتے ہیں:”وفی نسخۃ بصیغۃ الفاعل،ای لتقضی الحاجۃ لی،و المعنی لتکون سببا لحصول حاجتی و وصول مرادی فالاسناد مجازی“ترجمہ:ایک نسخہ میں معروف کاصیغہ ہے یعنی (یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ میری حاجت پوری فرمائیں، اب معنی  یہ ہے کہ آپ میری حاجت روائی کاسبب بنیں، پس یہ اسناد مجازی ہے۔ (الحرز الثمین  للحصن الحصین،جلد،1صفحہ 1062،مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ،الریاض)

   اوپر ذکر کی گئی حدیث کے متعلق امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”حدیث عظیم وجلیل ثابت یامحمد انی توجہت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی لی کہ صحاح ستہ سے تین صحاح جامع ترمذی ، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، میں مروی اور اکابر محدثین مثل امام ترمذی وامام طبرانی وامام بیہقی وابوعبداللہ حاکم امام عبدالعظیم منذری وغیرہم اسے صحیح فرماتے  آئے ہیں جسے خود حضور پر نور سید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قضائے حاجت کے لئے تعلیم، اور صحابہ وتابعین رضی اللہ تعالٰی عنہم نے زمانہ اقدس اور حضورکے  بعد زمانہ امیر المومنین عثمان  غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ میں حاجت روائی کا ذریعہ بنایا۔“(فتاوی رضویہ،جلد21،صفحہ327,328،رضافاونڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم