Sajawat Aur Juloos e Milad Ki Wajah Se Namaz Ba Jamaat Chorna Kaisa?

 

سجاوٹ اور جلوسِ میلاد کی وجہ سے نماز باجماعت چھوڑنا کیسا ؟

مجیب:محمد فرحان افضل  عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-7501

تاریخ اجراء: 07 ربیع الاول1446ھ/12ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ماہِ ربیع الاول میں گلیوں وغیرہ کی سجاوٹ کے دوران،یونہی جلوسِ میلاد میں شرکت کی وجہ سے جماعت چھوڑ نا یا نماز ہی قضا کر دینا کیسا؟کئی لوگ ان کاموں میں مشغولیت کے سبب نماز یا جماعت کی بالکل بھی پرواہ نہیں کرتے،برائےکرم اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      اولاً یہ بات ذہن نشین رہے کہ شریعت کے دائرے میں رہ کر نبی پاک صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی ولادتِ باسعادت کی خوشی میں گھروں،گلیوں اور محلوں کو سجانا،چراغاں کرنا،جھنڈے لگانا،جلوس نکالنا اور خوشی کا اظہار کرنا وغیرہ سب امور جائز و مستحسن اور باعثِ ثواب ہیں؛ ان  چیزوں کی اصل قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ان کاموں میں مشغولیت نماز قضا کرنے،یونہی واجب جماعت چھوڑ دینے کے لیے ہر گز ہر گز عذر نہیں،کیونکہ نماز تمام فرائض میں انتہائی اہم واعظم رکن ،دین کا ستون اور حضور شہنشاہِ خیرالانام  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،قرآن و حدیث میں اسے قائم کرنے کی تاکید اور چھوڑنے پر سخت وعیدات بیان کی گئی ہیں،اتنی تاکیدو وعیدات کسی دوسری عبادت کے لیے بیان نہیں ہوئیں۔خود آقائے دو جہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کےفرامین کے مطابق:جوشخص نماز کی حفاظت نہیں کرتا، اس کا حشر فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔حتی کہ کل  بروزِ قیامت اعمال میں  سب سے پہلے نماز ہی کے بارے میں سوال ہوگا،اگر یہ درست ہوئی،تو بقیہ اعمال بھی ٹھیک ہوں گے اور یہی درست نہ ہوئی،توبقیہ اعمال بھی درست نہ  رہیں گے۔

   اور جماعت  میں  حاضر نہ ہونے سے متعلق فرمایا: ظلم پورا ظلم،کفر اور نفاق ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کے منادی کو نماز کے لیے بلاتا سنے اور وہ جماعت کے لیے حاضر نہ ہو۔لہذا میلاد سے متعلق معمولاتِ اہلسنت  کی ضرور بجاآوری ہونی چاہیے،لیکن اس  کی وجہ سے نماز و جماعت کو ہر گز نہ چھوڑا جائے،ورنہ سخت گنہگار اور عذابِ نار کے حق دار ہوں گے۔

معمولاتِ میلاد پر دلیل:

   اللہ جل شانہ نے قرآنِ کریم میں اپنا فضل اور رحمت ملنے پر خوشی منانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور یقیناًنبی آخر الزمان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم اللہ تعالی کاعظیم ترین فضل اور رحمت  ہیں،لہٰذا آپ کی ولادت کی خوشی میں جائز خوشیاں منانا عین حکمِ خداوندی کے  مطابق ہے۔چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے:﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا- هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ﴾ترجمہ: تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے ، یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں ۔(پارہ11،سورہ یونس،آیت58)

   اس آیت کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں ہے:’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے کیا مراد ہے؟اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں۔۔بعض علماء نے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل حضورپُرنورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت قرآنِ کریم۔رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:﴿وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا﴾ترجمہ: اور آپ پر اللہ کافضل بہت بڑا ہے۔بعض نے فرمایا :اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل قرآن ہے اور رحمت حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں،جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:﴿وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ترجمہ:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیےرحمت بنا کر ہی بھیجا۔

   اور اگر بالفرض اِس آیت میں متعین طور پر فضل و رحمت سے مراد سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ مبارکہ نہ بھی ہو،تو جداگانہ طور پر تواللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یقینا اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین فضل اور رحمت ہیں، لہٰذا فنِ تفسیر کے اس اصول پر کہ عمومِ الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے ، خصوصِ سبب کا نہیں ، اس کے مطابق ہی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِ مبارکہ کے حوالے سے خوشی منائی جائے گی،خواہ وہ میلاد شریف کرکے ہو یا معراج شریف منانے کے ذریعے، ہاں اگر کسی بدنصیب کے لیےیہ خوشی کامقام ہی نہیں ہے، تو اس کا معاملہ جدا ہے، اسے اپنے ایمان کے متعلق سوچنا چاہیے۔‘‘   (تفسیرِ صراط الجنان،جلد4،صفحہ340، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

نماز کی اہمیت و چھوڑنے پر وعیدات:

   نماز کی پابندی کرنے کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ٭ وَقُوۡمُوۡا لِلہِ قٰنِتِیۡنَترجمہ کنز العرفان:’’تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصاً درمیانی نماز کی اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔‘‘ (پارہ2،سورۃ البقرہ،آیت238)

   اور نمازیں ضائع کرنے والوں کے بارے میں  ارشاد فرماتا ہے:﴿ فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاترجمہ کنزالعرفان:’’تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی، تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غَی سے جاملیں گے۔“(پارہ16،سورہ مریم،آیت59)

   حدیثِ پاک میں ہے:’’من لم یحافظ علیھا لم یکن لہ نور ولا برھان ولا نجاۃ وکان یوم القیامۃ مع قارون وفرعون وھامان وابی بن خلف‘‘ترجمہ:جو شخص نماز کی حفاظت نہ  کرے،بروزِ قیامت اس کے لیے نہ نور ہوگا،نہ دلیل اور نہ ہی نجات اور (معاذاللہ!)اس کا حشر فرعون،قارون،ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔  (مسند امام احمد بن حنبل، جلد 11، صفحہ 141، مطبوعہ  مؤسسۃ الرسالہ)

   ایک دوسری حدیث میں ہے:’’اول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ الصلاۃ،فان صلحت صلح لہ سائر عملہ وان فسدت فسد سائر عملہ‘‘ترجمہ:پہلی چیز جس کا روزِ قیامت بندے سے حساب ہوگا،وہ نماز ہے، اگر یہ درست ہوئی ،تو بقیہ اعمال بھی درست ہوں گے اور یہ درست نہ ہوئی،تو بقیہ اعمال بھی درست نہ رہیں گے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی،جلد2،صفحہ240،مطبوعہ قاھرہ)

جماعت چھوڑنے پر وعیدات:

   شہنشاہِ امم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’لقد هممت ان آمر فتيتي فيجمعوا حزما من حطب، ثم آتي قوما يصلون في بيوتهم ليست بهم علة فاحرقها عليهم‘‘ترجمہ:تحقیق میں نے ارادہ کیا کہ  اپنے جوانوں کو حکم دوں،پس وہ لکڑیوں کے گٹھے جمع کریں،پھر ان لوگوں کے پاس آؤں ، جو بغیر عذر گھروں میں نماز پڑھتے ہیں اور ان پر ان کے گھروں کو جلا دوں۔ (سنن ابی داؤد ،جلد1،صفحہ150،مطبوعہ بیروت)

   مزید ارشاد فرمایا:’’الجفاء كل الجفاء والكفر والنفاق من سمع منادی اللہ ينادی بالصلاة يدعو الى الفلاح ولا يجيبه‘‘ ترجمہ:ظلم پورا ظلم،کفر اور نفاق ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کے منادی کو نماز کے لیے ندا کرتا اور کامیابی کی طرف بلاتا سنے اور وہ حاضر نہ ہو ۔(مسند احمد بن حنبل،جلد24،صفحہ390،مؤسسۃ الرسالہ،بیروت) 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم