Quran Me Hai Insan Ke Liye Wahi Hoga Jiski Usne Koshish Ki To Kya Esal e Sawab Faida Deta Hai?

قرآن میں ہے ’’انسان کے لیے وہی ہو گا ،جس کی اس نے کوشش کی ‘‘ تو کیا ایصال ثواب فائدہ دیتا ہے ؟

مجیب:عبدالرب شاکرعطاری مدنی

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8006

تاریخ اجراء:04صفر المظفر 1444ھ/02ستمبر2022

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ تدفین کے بعد قرآنِ پاک کی تلاوت ، ذکر و نعت اور درود و سلام جیسی مختلف صورتوں میں میت کو ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے ، سوال یہ ہے کہ قرآنِ پاک میں ہے : ﴿وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىیعنی ہر شخص اپنے اَعمال کا جواب دہ ہے ، تو پھر دوسروں کے یہ اعمال کیوں کر فائدہ دیں گے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسلمان کا اپنے کسی بھی نیک عمل جیسے تلاوتِ قرآن،ذکرواَذکار،درود وسلام کاثواب دوسرے مسلمان کو پہنچانا نہ صرف جائز ،بلکہ امرمستحسن ہےاور یہ زمانہ نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے لے کر اب تک مسلمانوں میں چلا آ رہا ہے،ایصالِ ثواب کے ثبوت پر بکثرت آیاتِ قرآنیہ،احادیث نبویہ اور اقوالِ فقہاء شاہدہیں اور جو آیت مبارکہ  ﴿ وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى”ترجمہ کنزالعرفان:’’اوریہ کہ انسان کے لیےوہی ہو گاجس کی اس نے کوشش کی۔“ سوال میں مذکور ہے،اس سے ایصالِ ثواب کی نفی پر استدلال کرنا قطعا درست نہیں ہے۔مفسرین کرام   اور فقہائے عظام نے اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں متعدد اَقوال بیان کیے ہیں،جو درج  ذیل ہیں:

    (1)یہ حکم  منسوخ ہے۔

    (2)اس آیت کا حکم قومِ ابراہیم اور قومِ موسی علیھما السلام کے ساتھ خاص ہے،جبکہ اس امت کو اپنے اعمال کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے اور دوسرے لوگ جو ان کو اعمال کا ثواب ایصال کرتے ہیں، اس سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔

    (3)اس آیت مبارکہ میں انسان سے مراد کافر ہے کہ کافر کو کوئی بھلائی نہ ملے گی۔

    (4)یہ اس وقت تک ہے ، جب تک عمل کرنے والے نے اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو نہ دیا ہو ، مگر جب عمل کرنے والا ثواب دے دے ، تو وہ دوسرے کو پہنچے گا۔

    (5)اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ جو محض بدنی عبادات ہوں، ان میں مطلقاً نیابت جائز نہیں ، یعنی کوئی کسی کی طرف سے نماز پڑھ کر یا روزہ رکھ کر اس کو بری الذمہ نہیں کر سکتا، بلکہ یہ عبادات خود بجالائے گا ، تو بری الذمہ ہو گا۔

    (6)اس آیت کریمہ کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کے عدل کے اعتبار سے انسان وہی کچھ پائے گاجو اس نے عمل کیا،لیکن اللہ تعالی اپنے فضل و رحمت سے اسے جو چاہے عطا فرما دے۔

   کسی کے  نیک عمل کی برکت سے دوسرے کو فائدہ پہنچنے کے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌترجمہ کنزالایمان:اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب !ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ ۔اے رب ہمارے، بے شک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے۔ (القرآن،پارہ28،سورۃ الحشر،آیت10)

   مذکورہ بالاآیت کے متعلق تفسیر مظہری میں ہے :”قال السيوطی وقد نقل غير واحد الاجماع على ان الدعاء ينفع الميت ودليله من القرآن قوله تعالى﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ“ترجمہ: امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کئی علماء نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ دعامیت کو فائدہ دیتی ہے اور اس کی دلیل قرآن پاک سے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِہے۔(التفسير المظهری، ج 09، ص 127، مطبوعہ کوئٹہ)

   میت کو نیک اعمال پہنچانے کے  متعلق صحیح بخاری میں ہے :” عن عائشة رضی الله عنها ان رجلا قال للنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان امی افتلتت نفسها واظنها لو تكلمت تصدقت فهل لها اجر ان تصدقت عنها؟ قال نعم “ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت ہےکہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی : میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں ، میرا خیال ہے کہ اگر وہ کوئی بات کر تیں تو صدقہ دینے کا کہتیں ،تو اگر میں ان کی طرف سے خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب ملے گا؟ ارشاد فرمایا: جی ہاں۔(صحیح البخاری ، ج 02، ص 102، مطبوعہ دار طوق النجاة)

   سنن ابو داؤد میں ہے:”عن سعد بن عبادة انه قال يا رسول الله  ان ام سعد ماتت  فای الصدقة افضل؟ قال الماء قال: فحفر بئرا  وقال هذه لام سعد“ترجمہ:حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! امِّ سعد(میری ماں) انتقال کر گئی ہیں ،تو کون سا صدقہ (ان کے لیے) بہتر ہے؟ فرمایا ”پانی“تو انہوں نے کنواں کھدوایا اور کہا کہ یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے۔(سنن ابو داؤد، ج2، ص130، مطبوعہ مکتبۃ العصریۃ، بیروت)

   دورِ رسالت سے آج تک اپنے نیک اعمال کا ثواب دوسرے مسلمان بھائی کو پہنچانے کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے:”وعلیہ عمل المسلمين من لدن رسول الله صلى الله عليه وسلم الى يومنا هذا من زيارة القبور وقراءة القران عليها والتكفين والصدقات والصوم والصلاة وجعل ثوابها للاموات ولا امتناع فی العقل ايضا لان اعطاء الثواب من الله تعالى افضال منه لا استحقاق عليه  فله ان يتفضل على من عمل لاجله يجعل الثواب له كماله ان يتفضل باعطاء الثواب من غير عمل راسا“ترجمہ: قبروں کی زیارت کرنا اور قبروں پر قرآن پاک کی تلاوت کرنا ( مُردوں کو) کفن دینا، صدقات کر نا، روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا اور ان سب کا ثواب مُردوں کو پہچانے پر مسلمانوں کا دورِرسالت سے لے کر آج کے دن تک عمل ہے اور ( نیک اعمال کر کے مُردوں کو ثواب ایصال کرنا )عقلا بھی ناممکن نہیں ، کیونکہ ثواب دینا اللہ تعالی کی طرف سے فضل ہے،اس پر لازم نہیں ہے، وہ چاہے  تو اس بندے پر بھی فضل فرمادے ، جس کو ثواب پہنچانے کے لیے کوئی بندہ عمل کرے ، جیسا کہ اللہ خود مختار ہے اس میں کہ بغیر کسی عمل کے ہی کسی کو ثواب ( یعنی اپنا فضل ) عطا فرمادے۔  (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ج 02، ص 212، مطبوعہ دار الكتب العلمية،بیروت)

   سوال میں درج آیت کریمہ کے حکم کے منسوخ ہونے کے بارے میں  تفسیر خازن میں ہے :”قال ابن عباس: هذا منسوخ الحكم فی هذه الشريعة بقوله تعالى ﴿الحقنا بهم ذريتهمترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : یہ حکم ہماری شریعت میں اللہ تعالی کے فرمان (الحقنا بهم ذريتهم) سے منسوخ ہو گیا۔(تفسیر خازن، ج04، ص 213، مطبوعہ دار الكتب العلمية ،بيروت)

   تفسیر طبری میں ہے:”عن ابن عباس أنه قال: هذه الآية منسوخة قوله ﴿وأن ليس للإنسان إلا ما سعى﴾ فأنزل الله بعد هذا ﴿والذين آمنوا واتبعتهم ذريتهم بإيمان ألحقنا بهم ذريتهم﴾ فأدخل الأبناء بصلاح الآباء الجنة“ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا:یہ آیت﴿وأن ليس للإنسان إلا ما سعىمنسوخ ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت کے بعد یہ آیت﴿والذين آمنوا واتبعتهم ذريتهم بإيمان ألحقنا بهم ذريتهمنازل فرمائی ،لہذا بچوں کو باپوں کی نیکی کی وجہ سے جنت میں داخل کیا گیا۔(ملخص از تفسیرطبری،ج22،ص80،مطبوعہ دارھجر)

   اس حکم کے قومِ ابراہیم و قومِ موسی علیہما السلام کی امت کے ساتھ خاص ہونے کے بارے میں حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے:” وقال عكرمة: كان ذلك لقوم إبراهيم وموسى، فأما هذه الأمة فلهم ما سعوا وما سعى لهم غيرهم“ترجمہ:حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے:یہ حکم حضرت ابراہیم اور حضرت موسی علیہما السلام کی قوم کے ساتھ خاص ہے،بہرحال یہ امت تو ان کے لیے وہ اجر بھی ہے جس کی یہ(خود) کوشش کریں اور اس کا اجر بھی ہے جو( کسی کی طرف سے) ان کے لیے کیاجائے۔(تفسیربغوی،ج04،ص314،مطبوعہ داراحیاء التراث العربی،بیروت)

   تفسیرصراط الجنان میں ہے :”ایک قول یہ ہے کہ یہ مضمون بھی حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما الصلوۃ والسلام کے صحیفوں کا ہے ، اور کہا گیا ہے کہ یہ ان ہی امتوں کے لئے خاص تھا ،جبکہ اس امت کے لئے ان کا اپنا عمل بھی ہے اور وہ عمل بھی ہے جو ان (کو ثواب پہنچانے) کے لئے کیا گیا ہو۔“(تفسیرصراط الجنان، ج 09، ص 571، مطبوعه مكتبة المدینہ،کراچی)

   حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:”هذا لقوم ابراهيم وموسى واما هذه الامة لهم ما سعوا وسعی لهم “ترجمہ: یہ ( آیت) حضرت موسی اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کی قوم کے بارے میں ہے ،بہر حال یہ امت  تو ان کے لیے وہ اجر بھی ہے جس کی یہ(خود) کوشش کر یں اور اس کا اجر بھی ہے جو( کسی کی طرف سے) ان کے لیے کیا جائے۔  (الاختيار لتعليل المختار، ج04، ص 180 مطبوعہ القاهرة)

   مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں انسان سے مراد کافر ہونے کے بارے تفسیر خازن میں ہے:”وقيل اراد بالانسان الكافر والمعنى ليس له من الخير الا ما عمل هو فيثاب عليه فی الدنيا بان يوسع عليه فی رزقه ويعافى فی بدنه حتى لا يبقى له فی الاخرة خير “ ترجمہ: اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں (آیت میں)انسان سے کافر مراد ہے ( اور آیت کے) معنی یہ ہیں کہ کافر کو کوئی بھلائی نہ ملے گی،مگر اس نے جو(اچھا) عمل کیا تو اسے دنیا میں اس کا ثواب دیا جائے گا(وہ اس طرح ) کہ  اس پر اس کے رزق میں کشادگی کردی جائے گی اور اس کے بدن کو عافیت (تندرستی) دی جائے گی، یہاں تک کہ اس کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی (حصہ) باقی نہ رہے گا۔(تفسیر خازن، ج04 ، ص 213، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)

   تفسیر بغوی میں ہے:”وقال الربيع بن أنس:﴿وأن ليس للانسان إلا ما سعى﴾ يعني الكافر، فأما المؤمن فله ما سعى وما سعي له “ترجمہ:اور ربیع بن انس نے کہا: ﴿ وأن ليس للانسان إلا ما سعىمیں انسان سے مراد کافرہے،بہرحال مؤمن تو اسے وہ ملے گا جس کی اس نے کوشش کی اور جو اس کے لئے کوشش کی گئی۔(تفسیر بغوی،ج04،ص315،مطبوعہ داراحیاء التراث العربی،بیروت)

   الاختيار تعليل المختار میں ہے : ”ومذهب اهل السنة والجماعة ان للانسان ان يجعل ثواب عمله لغيره ويصل۔۔۔ ومنع بعضهم من ذلك وقال لايصل متمسكا بقوله تعالى﴿ وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۔۔۔ الجواب عن الاية من وجوه۔۔۔المراد بالانسان هنا الكافر اما المومن له اجر ما سعى وسعی له“یعنی اہلسنت و جماعت کا مذ ہب یہ ہے کہ انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچائےاور وہ پہنچتا ہے ۔۔۔اور بعض اس سے منع کرتے ہیں اور آیت ﴿ وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىکو دلیل بناتے ہوئےکہتے ہیں کہ (یہ ثواب دوسرے کو )نہیں پہنچتا، اس آیت کا جو اب کئی طرح سے ہے :(ان میں سے ایک جواب یہ ہے کہ ) اس آیت میں انسان سے مراد کا فر ہے بہر حال مومن ، تو اس کے لیے اس(عمل) کا اجر بھی ہے جس کی اس نے کوشش کی اور اس (عمل)کا اجر بھی ہے جو (کسی کی طرف سے) اس کے لیے کیا گیا۔ (الاختيار لتعليل المختار ج04، ص 180، مطبوعة القاهرة)

   اس آیت کا محمل عمل کرنے والے کےاپنے عمل کا ثواب دوسرے کو دینے کے متعلق بحر الرائق میں ہے :” وفيه تاويلات اقربها ما اختاره المحقق ابن الهمام انها مقيدة بما يهبه العامل يعنی ليس للانسان من سعی غيره نصيب الا اذا وهبه له فحينئذ يكون لہ“ ترجمہ: اس آیت میں کئی تاویلات ہیں :ان میں ( درستگی کے) قریب ترین وہ ہے ، جس کو محقق امام ابن ہمام نے اختیار کیا ہے کہ یہ مقید ہے اس صورت کے ساتھ  جس کو عمل کرنے والا ہبہ کرے یعنی انسان کے لیے دوسرے کے عمل سے حصہ نہیں ہے ، مگر جب وہ عمل کرنے والا اس عمل کا ثواب کسی کو دے دے ، تو وہ اس وقت اس کے لیے ہو جائے گا ( جس کو عمل کرنے والے نے دیا)۔ ( البحر الرائق ، ج 6 ، ص 142 ، مطبوعہ دار الكتب العلمية ،بيروت )

   اس آیت سے مرادمحض وہ بدنی عبادات ہیں،جن میں مطلقاً نیابت جائز نہیں ،جیساکہ بدائع الصنائع میں ہے :” والبدنية المحضة لا تجوز فيها النيابة على الاطلاق لقوله عز وجل ﴿ وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى الا ما خص بدليل وقول النبی صلى الله عليه وسلم لا يصوم احد عن احد ولا يصلی احد عن احد ای فی حق الخروج عن العهدة لا فی حق الثواب “ ترجمہ: جو محض بدنی عبادات ہوں ان میں مطلقا نیابت جائز نہیں ،اللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ سے ﴿ وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى مگر جو کسی دلیل سے خاص ہو جائے ( اس میں نیابت درست ہو گی) اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : نہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ رکھے، نہ کوئی کسی کی طرف سے نماز ادا کرے  ،یہ فرمان اپنے اوپر لازم شدہ  کام سے بر ی الذمہ ہونے کے حق میں ہے نہ کہ ثواب کے حق میں ۔ ( یعنی کوئی کسی کی طرف سے نماز پڑھ کر یاروزہ ر کھ کر اس کو بری الذمہ نہیں کر سکتا، بلکہ اس کو خو د رکھنا ہو گا پھر بری الذمہ ہو گا ،لیکن نماز، روزہ کا ثواب پہنچا سکتا ہے)۔ ( بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، ج 02 ، ص212، مطبوعہ دار الكتب العلمية،بیروت)

   عدل کی طرف نسبت کے متعلق تفسیر روح البیان میں ہے:” ومنها انه بالنسبة الى العدل لا الفضل “ترجمہ:اوراس آیت کے جوابات میں سے ایک جواب یہ ہے کہ انسان عدل کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہی پائے گا جو اس نے کیا ہے،نہ کہ فضل کی طرف نسبت کرتے ہوئے۔(روح البیان،ج09،ص249،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

   تفسیرصراط الجنان میں ہے:”مفسرین نے اس آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا ہے کہ آدمی عدل کے تقاضے کے مطابق وہی پائے گا جو اس نے کیا ہے اور اللہ تعالی اپنے فضل سے جو چاہے عطا فرمائے۔“(تفسیرصراط الجنان،ج09،ص574،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم