Naqshe Nalain Pak Ki Fazilat Aur Chand Ahkam

نقش نعلین پاک کی فضیلت اور چند احکام

مجیب: مفتی محمد ھاشم خان عطاری مدنی

فتوی نمبر: Lar-6344

تاریخ اجراء:       29جمادی الاولی 1438 ھ/27فروری7 201 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ:

   (1)حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کے نعلین پاک کا نقش لگانے کی کیا  فضیلت و فائدہ ہے؟

   (2) نقشِ نعلین پاک کو زمین پر رکھنا کیسا ؟

   (3)اگر کوئی شخص کہے کہ یہ نقش نعلین  مبارک جو لوگوں میں مشہور ہے  ،اصل نہیں ہے، آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نعلین مبارک اور قسم کا تھا، اس لیے وہ نعلین مبارک نہ لگانے دے ،تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)ہمارے آقا و مولامحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم  کے  نعلین مبارک کا نقش بنا کر اپنے پاس رکھنا یا لگانا باعث برکت ہے ، جس کے فوائد بے شمار  ہیں اوراس کی فضیلت و برکت پر ائمہ کرام نے باقاعدہ کتب تصنیف فرمائیں اوران میں نعلین پاک  کے  نقشے تحریر فرمائےاور نقش مبارک کو بوسہ دینے ،آنکھوں سے لگانے، سر پر رکھنے کا حکم فرماتے رہے اور دفعِ امراض (بیماری دور کرنے)وحصولِ اغراض (غرض و مقصد حاصل کرنے)میں اس سے توسل کرتے رہے اور بفضلِ الٰہی عظیم وجلیل برکات وآثار اس سے پاتے رہے ہیں۔علما فرماتے ہیں جس کے پاس  نعلین مبارک کا نقش ہوگا، وہ ظالموں کے ظلم ، حاسدوں کی  نظراور شیطان کے شر سے محفوظ رہے گااورجو ہمیشہ پاس رکھے گا،لوگوں میں معزز ہوگا ،اسے  زیارت روضہ مقدس نصیب ہو گی یا خواب میں زیارتِ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم سے مشرف ہوگا،جس قافلہ  میں نقشِ نعل پاک ہو نہ لُٹے، جس کشتی میں ہو نہ ڈوبے، جس مال میں ہو چوری  نہ ہو، جس حاجت میں اس سے توسل کیا جائے پوری ہو ،جس مراد کی نیت سے پاس رکھیں پوری  ہو ،اس باب میں حکایت صلحا وروایات علما بہت زیادہ ہیں۔

   علامہ محمد بن احمد بن علی فاسی قصری مطالع المسرات میں فرماتے ہیں:’’وقد استنابوامثال النعل عن النعل وجعلوہ لہ من  الاکرام  و الاحترام  ما  للمنوب  عنہ  و ذ کروا   لہ   خواصا   و    برکات  و قد     جربت وقال فیہ اشعارا کثیرۃ والفوا فی صورتہ ورووہ بالاسانید وقد قال القائل:۔

اذا ماالشوق اقلقنی الیھا   ولم اظفر بمطلوبی لدیھا

نقشت مثالھا فی الکف نقشا   وقلت لنا ظری قصرا علیھا

   علمائے کرام نے نعلِ مقدس کے نقش کو نعل مقدس کا قائم مقام بنایا اور اس کے لیے وہی اکرام واحترام جو اصل کے لیے تھا، ثابت ٹھہرایا اور اس نقشِ مبارک کےلیے خواص وبرکات ذکر فرمائے اور بلاشبہہ وہ تجربے میں آئے اور اس میں کثیر اشعار کہے اور اس کی تصویر میں کتب تالیف کیں اور اسے سندوں کے ساتھ روایت کیا اور کہنے والے نے کہا:جب اس کی آتش شوق میرے سینے میں بھڑکتی ہے اور اس کا دیدار میسر نہیں ہوتا، تواس کی تصویر ہاتھ پر کھینچ کر آنکھ سے کہتاہوں اسی پر بس کر۔‘‘( مطالع المسرات،ص144، المکتبہ النوریۃ الرضویۃ، فیصل آباد)

   امام قسطلانی  نےلکھا کہ ابواسحاق ابراہیم بن الحاج فرماتے ہیں کہ ان کے شیخ الشیخ ابوالقاسم بن محمد  نے فرمایا:’’ومما جرب من برکتہ ان من امسکہ عندہ متبرکابہ کان لہ امانا من بغی البغاۃ وغلبۃ العداۃ وحر زا من کل شیطان مارد وعین کل حاسد وان امسکت المرأۃ الحامل بیمینھا وقد اشتد علیھا الطلق تیسرا مرھا بحول ﷲ تعالی وقوتہ‘‘یعنی:نقشِ نعل مبارک کی آزمائی ہوئی برکات سے یہ ہے کہ جو شخص تبرک  کی نیت سے اسے اپنے پاس رکھے، ظالموں کے ظلم اور دشمنوں کے غلبے سے امان پائے اور وہ نقشِ مبارک  کی برکت سےہر شیطان سرکش سے اور حاسد کی نظر سے محفوظ ہو جائے اور حاملہ عورت درد زہ  کی شدت میں اگر اسے اپنے داہنے ہاتھ میں لے ،بعنایت الٰہی اس کا کام آسان ہو۔(المواھب اللدنیہ،المقصد الثالث ،ج2،ص467،المکتب الاسلامی ،بیروت )

   امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:’’ اسی طرح طبقۃً فطبقۃشرقاً غرباً عرباً عجماً علمائے دین وائمہ معتمدین نعل مطہر حضور سید البشر علیہ افضل الصلوٰۃ واکمل السلام کے نقشے کاغذوں پر بناتے کتابوں میں تحریر فرماتے آئے اور  انہیں بوسہ دینے آنکھوں سے لگانے سر پر رکھنے کا حکم فرماتے رہے اور دفع امراض وحصول اغراض میں اس سے توسل فرمایا کیے اور بفضل الٰہی عظیم وجلیل برکات وآثار اس سے پایا کیے ۔

   علامہ ابوالیمن ابن عساکر وشیخ ابواسحٰق ابراہیم بن محمد بن خلف سلمی وغیرہما علما نے اس باب میں مستقل کتابیں تصنیف کیں اور علامہ احمد مقتری کی فتح المتعال فی مدح خیر النعال اس مسئلہ میں اجمع وانفع تصانیف سے ہے۔ محدث علامہ ابوالربیع سلیمان بن سالم کلاعی وقاضی شمس الدین ضیف اللہ رشیدی وشیخ فتح اللہ بیلونی حلبی معاصر علامہ مقتری وسید محمد موسی حسینی مالکی معاصر علامہ ممدوح وشیخ محمد بن فرج سبتی وشیخ محمد بن رشید فہری سبتی وعلامہ احمد بن محمد تلمسانی موصوف وعلامہ ابوالیمن ابن عساکر وعلامہ ابوالحکم مالک بن عبدالرحمن بن علی مغربی وامام ابوبکر احمد ابو محمد عبداللہ بن حسین انصاری قرطبی وغیرہم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے نقشہ نعل مقدس کی مدح میں قصائد عالیہ تصنیف فرمائے ،ان سب میں اسے بوسہ دینے سرپر رکھنے کا حکم واستحسان مذکور اوریہی مواہب لدنیہ امام احمد قسطلانی وشرح مواہب علامہ زرقانی وغیرہما کتب جلیلہ میں مسطور وقد لخصنا اکثر ذٰلک فی کتابنا المزبور  ( اور ہم نے اکثر کا خلاصہ اپنی مذکور کتاب میں ذکر کیا ہے)

   علما فرماتے ہیں جس کے پاس یہ نقشہ متبرکہ ہو ظلم ظالمین وشر شیطان وچشم زخم حاسدین سے محفوظ رہے۔عورت دردزہ کے وقت اپنے داہنے ہاتھ میں لے آسانی ہو، جو ہمیشہ پاس رکھے نگاہ خلق میں معزز ہو  زیارت روضہ مقدس نصیب ہو یا خواب میں زیارت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مشرف ہو، جس لشکر میں ہونہ بھاگے، جس قافلہ میں ہو نہ لٹے، جس کشتی میں ہو نہ ڈوبے ،جس مال میں ہو نہ چُرے، جس حاجت میں اس سے توسل کیا جائے پوری ہو، جس مراد کی نیت سے پاس رکھیں حاصل ہو، موضع درد ومرض پر اسے رکھ کر شفائیں ملی ہیں، مہلکوں مصیبتوں میں اس سے توسل کرکے نجات وفلاح کی راہیں کھلی ہیں، اس باب میں حکایاتِ صلحا وروایات علما بکثرت ہیں کہ امام تلسمانی وغیرہ نے فتح المتعال وغیرہ میں ذکر فرمائیں۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج21، ص413، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   (2)اس سوال کا جواب بھی گزشتہ جواب سے واضح ہو چکا کہ  نقشِ نعلینِ مبارک  کی تعظیم کا حکم ہے اور ہر اس چیز کی تعظیم کا حکم ہے ،جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ علاقہ ہو یا جو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پاک سے مشہور ہواور نقش نعلین پاک کی تعظیم بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم  کی  وجہ سے ہی ہےاورنقش مبارک کو  زمین پر رکھنا خلاف تعظیم و بے ادبی  ہے کہ ہمارے عُرف  میں اسے بے ادبی سمجھا جاتا ہے اور امورِ ادب میں اعتبار عرف کا ہی ہے،کوئی عاشقِ رسول تو کبھی گوارا نہیں کرےگاکہ نعلین مبارک کا نقشِ پاک جس کی جگہ سر اور سینہ ہے، زمین پر رکھا جائے ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے :’’ تواترسے ثابت کہ جس چیز کوکسی طرح حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کوئی علاقہ بدن اقدس سے چھونے کا ہوتا صحابہ وتابعین وائمہ دین ہمیشہ اس کی تعظیم وحرمت اور اس سے طلب برکت فرماتے آئے اور دین حق کے معظم اماموں نے تصریح فرمائی ہے کہ اس کے لیے کسی سند کی بھی حاجت نہیں، بلکہ وہ چیز حضور اقد س صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام پاک سے مشہور ہو، اس کی تعظیم شعائر دین سے ہے۔شفا شریف ومواہب لدنیہ ومدارج شریف وغیرہا میں ہے: من اعظامہ صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم اعظامہ جمیع اسبابہ ومالمسہ او عرف بہ صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کی تعظیم میں سے ہے، ان تمام اشیاء کی تعظیم جن کو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم سے کچھ علاقہ ہو اور جسے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے چھوا ہو یا جو حضور کے نام پاک سے مشہور ہو۔یہاں تک کہ برابر ائمہ دین وعلمائے معتمدین نعل اقدس کی شبیہ ومثال کی تعظیم فرماتے رہے اور اس سے صدہا عجیب مددیں پائیں اور اس کے باب میں مستقل کتابیں تصنیف فرمائیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،ج21،ص414،415،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   فتاوی رضویہ میں ہے :’’امورِ ادب میں قطعاً عُرف کا اعتبار۔ امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر میں فرماتے ہیں:   فیحال علی المعھود حال قصد التعظیم،تعظیم مقصود ہونے کے وقت اسے عُرف پر محمول کیا جائےگا۔‘‘(  فتاوی رضویہ،ج5، ص650، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   مزید اسی میں ہے :’’قرآن مجید اگرچہ دس غلافوں میں ہو، پاخانے میں لے جانا بلاشبہہ مسلمانوں کی نگاہ میں شنیع اور اُن کے عُرف میں بے ادبی ٹھہرے گا اور ادب وتوہین کا مدار عُرف پر ہے۔‘‘( فتاوی رضویہ ، ج4، ص609، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   (3)نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کی نعلین مبارک کا جو نقش مسلمانوں میں معروف و مشہور ہے،  یہ نقش اصل نعلین مبار ک کے مطابق ہی ہے،تبع تابعین کے زمانے سے ہر دو رکے علما اس کے نقشے لیتے رہے ،اپنی کتابوں میں چھاپتے رہے اور اس کی برکات بیان کرتے رہےہیں جس سے امت میں نقش نعلین پاک کی شہرت ہو گئی اورکسی شے  کا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کے نام سے عوام و خواص میں مشہور ہو جانا ہی اس کی تعظیم و ادب کے لیے کافی ہے، اس  کے لیے علم یقینی یا سند محد ثانہ کی اصلا حاجت نہیں ہوتی، لہٰذا اس شخص کا یہ دعوٰی کہ یہ  نقش اصل نہیں  باطل ہے کہ دعوٰی بلا دلیل ہے اور اس  کا  اپنے باطل خیال  کو پیش کر کے لوگوں کو نقش نعلین پاک  کی تعظیم و ادب سے روکنا اس کی   بد نصیبی و سخت محرومی ہے۔

   امام اہل سنت شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’ایسی جگہ ثبوت یقینی یاسند محدثانہ کی اصلا حاجت نہیں اس کی تحقیق وتنقیح کے پیچھے پڑنا اوربغیر اس کے تعظیم وتبرک سے باز رہنا سخت محرومی کم نصیبی ہے۔ ائمہ  دین  نے

صرف حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام سے اس شے کا معروف ہونا ،کافی سمجھا ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،ج21، ص412 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   مزید  فتاوی رضویہ میں  ہے :’’دین حق کے معظم اماموں نے تصریح فرمائی ہے کہ اس کے لیے کسی سند کی بھی حاجت نہیں بلکہ وہ چیز حضور اقد س صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام پاک سے مشہور ہو اس کی تعظیم شعائر دین سے ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،ج21،ص415،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کے نام پاک سے کسی شے کا مشہور ہو جانا ہی تعظیم و ادب کے لیے کافی ہے،سند کی اصلاً حاجت نہیں، لیکن پھر بھی ائمہ نےاحادیث کی طرح نقش ِنعلین پاک کی باہتمام تام روایتیں کی ہیں۔ چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے :’’اب ہم بنظر اختصار ان باقی ائمہ واعلام کے بعض گرامی نام شمار کرنے پر اقتصار کریں جنہوں نے نقشہ مبارکہ بنوایا، بناکر اپنے تلامذہ کو عطافرمایا۔ ا س سے تبرک کیا، اس کی مدحیں لکھیں، اس سے فیض وبرکت حاصل کرنے ، اسے سر آنکھوں پر رکھنے، بوسہ دینے کی ترغیبیں کیں، احادیث کی طرح باہتمام تام اس کی روایتیں فرمائیں، جسےتفصیل دیکھنی ہو فتح المتعال وغیرہ کی طرف رجوع لائے، وباللہ التوفیق۔

   (۲۶) امام اجل ابواویس عبداللہ بن عبداللہ بن اویس ابوالفضل بن مالک بن ابی عامر اصبحی مدنی کہ اکابر علماء مدینہ طیبہ وائمہ محدثین ورجال صحیح مسلم وسنن ابی داؤد وترمذی ونسائی وابن ماجہ اور تبع تابعین کے طبقہ اعلیٰ سے ہیں، امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہنوئی اور بھتیجے یعنی ان کے حقیقی چچازاد بھائی کے بیٹے ہیں، 167ھ میں انتقال فرمایا: انہوں نے خود اپنے واسطے امام مالک و غیرہ اکابر تابعین وتبع تابعین کے زمانے میں نعل اقدس نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مثال بنواکر اپنے پاس رکھی اور قرناً فقرناً اس مثال کے نقشے ہر طبقے کے علما لیتے رہے۔

   (۲۷) ان کے صاحبزادے امام مالک کے بھانجے اسمعیل بن ابی اویس کہ امام بخاری وامام مسلم کے استاذ اور رجال صحیحین اور اتباع تبع تابعین کے طبقہ اعلیٰ سے ہیں اور امام شافعی وامام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے معاصر، 226 ہجری میں وفات پائی(۲۸) ان کے شاگرد ابویحیٰی بن ابی میسرہ(۲۹) ان کے تلمیذ ابو محمد ابراہیم بن سہل سبتی(۳۰) ان کے شاگرد ابو سعید عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ مکی،(۳۱) ان کے تلمیذ محمد بن جعفرتمیمی (۳۲) ان کے تلمیذ محمد بن الحسین الفارسی،(۳۳) ان کے شاگرد شیخ ابو زکریا عبدالرحیم بن احمد بن نصر بن اسحاق بخاری،(۳۴) ان کے تلمیذ شیخ فقیہ ابوالقاسم حلی ابن عبدالسلام بن حسن رمیلی(۳۵) ان کے شاگرد شیخ عیاض(۳۶) دوسرے تلمیذ اجل امام اکمل حافظ الحدیث قاضی ابوبکر بن العربی اشبیلی اندلسی(۳۷) ان دونوں کے شاگرد امام ابن العربی کے صاحبزادے فقیہ ابو زید عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ(۳۸) ان کے تلمیذ ابن الحیہ(۳۹) ان کے شاگرد شیخ ابن البر تونسی(۴۰) ان کے تلمیذ شیخ ابن فہد مکی(۴۱)ح امام اجل ابن العربی ممدوح کے دوسرے شاگرد ابوالقاسم خلف بن بشکوال(۴۲) ان کے تلمیذ ابوجعفر احمد بن علی اوسی جن کے شاگرد ابوالقاسم  بن محمد اور ان کے تلمیذ ابواسحق ابراہیم بن الحاج ان کے شاگرد ابوالیمن ابن عساکر مذکورین ہیں جن کے اقوال طیبہ اوپر مرقوم ہوئے(۴۳) ح امام اسمعیل بن ابی اویس مدنی ممدوح کے دوسرے تلمیذ ابواسحق ابراہیم ابن الحسین(۴۴) ان کے شاگرد محمد بن احمد خزاری اصبہانی (۴۵) ان کے تلمیذ ابوعثمان سعید بن حسن تستری(۴۶) ان کے شاگرد ابو بکر محمد بن علی منقری(۴۷) ان کے تلمیذ ابوطالب عبداللہ بن حسن بن احمد عنبری(۴۸) ان کے شاگرد ابو محمد عبدالعزیز بن احمد کنانی (۴۹) ان کے تلمیذ ابو محمد ہبۃ اللہ بن احمد بن محمد اکفانی دمشقی(۵۰) ان کے شاگرد حافظ ابو طاہر احمد بن محمد بن احمد اسکندرانی(۵۱) ان کے تلمیذ ابوعبداللہ محمد بن عبدالرحمن تجیبی(۵۲) ان کے شاگرد ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ سبتی ان کے تلمیذ ابواسحق ابراہیم بن الحاج سلمٰی ممدوح ان کے شاگرد ابن عساکر(۵۳) ان کے تلمیذ بدر فارقی، یہ تین سلسلے مثل سلاسل حدیث تھے۔۔۔۔۔۔ بالجملہ مزار اقدس کا نقشہ تابعین کرام اور نعل مبارک کی تصویر تبع تابعین اعلام سے ثابت اور جب سے آج تک ہر قرن وطبقہ کے علما وصلحا میں معمول اور رائج ہمیشہ اکابر دین ان سے تبرک کرتے اور ان کی تکریم وتعظیم رکھتے آئے ہیں ،تو اب انہیں بدعت شنیعہ اور شرک وحرام نہ کہے گا،مگر جاہل بیباک یا گمراہ بددین مریض القلب ناپاک والعیاذباﷲ من مہاوی الہلاک  ۔آج کل کے کسی نو آموز قاصر ناقص فاتر کی بات ان اکابر ائمہ دین واعاظم علماء معتمدین کے ارشادات عالیہ کے حضور کسی ذی عقل دیندار کے نزدیک کیا وقعت رکھتی ہے، عاقل منصف کے لیے اسی قدر کافی ہے‘‘(ملتقطا ازفتاوی رضویہ ،ج21،ص453تا456،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم