Milad Ke Moqe Par Sajawat Ki Jagah Ghareeb Ki Madad Karna Kaisa?

میلاد کے موقع پر سجاوٹ کی جگہ غریب کی مدد کرنا کیسا؟

مجیب:محمد عرفان مدنی عطاری

مصدق:مفتی محمد ھاشم خان  عطاری

فتوی نمبر:Lar-10097

تاریخ اجراء:04ربیع الاول1442ھ/22اکتوبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ میلادشریف کے موقع پرجوشریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے سجاوٹ وغیرہ کی جاتی ہے ،بعض لوگ اس پرتنقیدکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے بجائے فلاحی کاموں،مثلا:کسی حاجت مندکی حاجت پوری کرنے،کسی غریب کی بیٹی کی شادی کرنے وغیرہ کاموں میں اتنی رقم لگادی جاتی۔حالانکہ ان لوگوں کا اصل مقصودجائزسجاوٹ وغیرہ سے روکناہوتاہے ،فلاحی کاموں میں رقم لگوانامقصودنہیں ہوتا۔اس طرح کرناکیساہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   میلاد شریف کے موقع  پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے سجاوٹ و چراغاں وغیرہ کرنا،شرعاجائز ہے اوراچھی نیت مثلا:اللہ تعالی کی نعمت کاچرچا،نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے اظہارمحبت وغیرہ  سے ہو،توباعث ثواب بھی ہےاورشرعی حدودمیں رہتے ہوئے ،جائزکاموں پراپنامال خرچ کرناشرع میں ممنوع نہیں ہے۔فلاحی کاموں کی وجہ سے زندگی کے دوسرے شعبہ جات میں اس طرح کی پابندیاں ایسے لوگ نہیں لگاتے،مثلا:ایسے لوگ یہ نہیں کہتے کہ :’’لوگ  انڈرائڈموبائل کے بجائے سادہ معمولی قیمت والاموبائل لیں اورزائدرقم کوفلاحی کاموں پرخرچ کریں ۔گھروں میں ٹائلیں،مہنگےفانوس،قالین،پردے،صوفے،پلنگ،اے سی،کولر وغیرہ استعمال نہ کیے جائیں، کوٹھیوں اوربنگلوں وغیرہ بڑے گھروں میں کوئی نہ رہے،  بلکہ بقدرضرورت رقم استعمال کرکے بقیہ رقم  فلاحی کاموں میں لگائی جائے ۔اسی طرح عمدہ کپڑے کوئی نہ پہنے،عمدہ کھانے کوئی نہ کھائے ،اچھے اسکولوں میں بچوں کوکوئی نہ پڑھائے،مہنگی گاڑیوں میں سفرکوئی نہ کرے، مہنگی گاڑیاں کوئی نہ خریدے،بقدرضرورت یہ چیزیں لے کربقیہ رقم فلاحی کاموں میں لگائی جائے،شادی کے موقع پرمہنگے ہوٹلوں میں عمدہ کھانوں وغیرہ کاانتظام نہ کیاجائے ، جہیزکے نام پرکثیررقم خرچ نہ کی جائے بلکہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم نے اپنی شہزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کوسادہ جہیزدیا،اسی طرح آج بھی سادہ جہیزدیاجائے ۔وغیرہ وغیرہ۔‘‘بلکہ زندگی کے ان شعبہ جات میں خودیہ لوگ اپنے معاملے میں بھی اس اصول کونہیں اپناتے ،خوداپنی ذات کے لیے ساری سہولیات اپناتے ہیں،اس وقت غریبوں کی طرف بالکل دھیان نہیں جاتا،نیزشادی،جشن آزادی وغیرہ مواقع پرہونے والی سجاوٹ ولائٹنگ پر بھی ان لوگوں کوغریبوں کاخیال نہیں آتا،جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان لوگوں کامقصدصرف اورصرف نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارک کے موقع پرخوشی کرنے سے،سجاوٹ وغیرہ کرنے سے  لوگوں کوروکناہے ۔حالانکہ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے یہ فرمایاہے کہ اللہ تعالی نے جوزینت لوگوں کے لیے نکالی اسے کس نے حرام کیاہے ۔اللہ تعالی نے اپنی نعمت کاچرچاکرنے کاحکم فرمایاہے اورنبی رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم یقینااللہ تعالی کی عظیم نعمت ہیں اوراس عمل سے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کاخوب چرچاہوتاہے ۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ہرپیرشریف کوروزہ رکھ کراپنامیلادشریف منایاہے ۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اس عظیم نعمت کے ملنے پرجلسہ سجایاہے، جس پررب رحمان جل جلالہ نے ان کی تعریف فرمائی ہے ۔

   قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے :﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللہِ الَّتِیۡۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِترجمہ کنزالایمان:تم فرماؤ کس نے حرام کی اللہ کی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق۔ (پارہ 8،سورۃ الاعراف،آیت32)

   قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے :﴿ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْترجمہ کنزالایمان:اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔(پارہ ،30سورۃ الضحی، آیت11)

   بخاری شریف میں ہے :’’محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نعمۃ اللہ ‘‘ترجمہ:حضرت محمدصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کی نعمت ہیں ۔   (صحیح البخاری،کتاب المغازی،ج05،ص76،دارطوق النجاۃ)

   صحیح مسلم شریف میں ہے:’’ أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم سئل عن صوم الاثنين؟ فقال: «فيه ولدت وفيه أنزل علي»‘‘ ترجمہ:اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے پیرشریف کے روزے کے متعلق سوال کیاگیا،توآپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اسی دن میری پیدائش ہوئی اوراسی میں مجھ پرنزول وحی کی ابتداء ہوئی۔ (کتاب الصیام،ج02،ص820،بیروت)

   سنن نسائی شریف میں ہے:’’ قال معاوية رضي اللہ عنه: إن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم خرج على حلقة يعني من أصحابه فقال: «ما أجلسكم؟» قالوا: جلسنا ندعو اللہ ونحمده على ما هدانا لدينه، ومن علينا بك، قال: «آلله ما أجلسكم إلا ذلك؟» قالوا: آللہ ما أجلسنا إلا ذلك، قال: «أما إني لم أستحلفكم تهمة لكم، وإنما أتاني جبريل عليه السلام فأخبرني أن اللہ عز وجل يباهي بكم الملائكة»‘‘ترجمہ:حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایاکہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  اپنے اصحاب علیہم الرضوان کے ایک حلقہ کے پاس تشریف لائےتوفرمایا:کس چیزنے تمہیں یہاں بٹھایاہے؟انہوں نے عرض کی :ہم اللہ تعالی کو پکاررہے ہیں اوراس کی تعریف کررہے ہیں اس پرکہ اس نے ہمیں اپنے دین پرچلایااورآپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہم پراحسان فرمایا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کیااللہ تعالی کی قسم دیتے ہوکہ تمہیں صرف اسی بات نے یہاں بٹھایاہے ۔انہوں نے عرض کی :اللہ تعالی کی قسم ہے کہ ہمیں صرف اسی بات نے یہاں بٹھایاہے ۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:سنومیں نے تم پرتہمت کی وجہ سے تم سے قسم نہیں لی ،میرے پاس جبریل علیہ الصلوۃ والتسلیم آئے،توانہوں نے مجھے بتایاکہ اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے تم پرفخرفرمارہاہے۔(سنن نسائی،کتاب آداب القضاۃ،ج08،ص249،مطبوعہ حلب)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم