مجیب: محمدعرفان مدنی
مصدق:
مفتی محمد ہاشم خان
عطاری
فتوی نمبر: Lar-6536
تاریخ اجراء: 01 شعبان المعظم 1438 ھ/28 اپریل
2017 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس
مسئلہ کے بارے میں کہ واقعہ معراج کہاں سے ثابت ہے اور اس کے منکرکاکیاحکم
ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسجدحرام سے مسجداقصیٰ تک راتوں رات
تشریف لے جانانص قطعی کتاب اللہ سے ثابت ہے ۔ اس کاانکارکرنے
والاکافرہے اورزمین سے آسمان اوران کے اوپرجن بلندمقامات تک اللہ
تعالی نے چاہا ، وہاں تشریف لے جانا احادیث مشہورہ سے ثابت ہے ،
اس کاانکارکرنے والاگمراہ ہے اور جنت میں یاعرش پرجانااخباراحادسے
ثابت ہے ، اس کا انکار کرنے والاگنہگار ہے ۔قرآن پاک میں
ارشادخداوندی میں ہے :﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ
اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا الَّذِیۡ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ
لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ہُوَ
السَّمِیۡعُ البَصِیۡرُ﴾ترجمہ
کنزالایمان:پاکی ہے اسے جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا
مسجدحرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گردا گرد ہم نے برکت رکھی کہ
ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ۔ بیشک وہ
سنتا دیکھتا ہے ۔(سورہ بنی
اسرائیل،پ15،آیت01)
اس آیت مبارکہ کے تحت حضرت علامہ
مولانامفتی صدر الافاضل محمدنعیم الدین مرادآبادی
علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں :”حضور پُرنور
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بیت المقدس تک شب کے چھوٹے
حصّہ میں تشریف لے جانا نصِّ قرآنی سے ثابت ہے ، اس کا منکِر
کافر ہے اور آسمانوں کی سیر اور منازلِ قرب میں پہنچنا
احادیثِ صحیحہ معتمدہ مشہورہ سے ثابت ہے ، جو حدِّ تواتر کے
قریب پہنچ گئی ہیں ، اس کا منکِر گمراہ ہے ۔ “
اسی
کی مثل عبارت تفسیرروح البیان میں بھی ہے، جس کے
الفاظ یہ ہیں :”قال الكاشفى :رفتن آن حضرت از مكه ببيت
المقدس بنص قرآن ثابتست ومنكر آن كافر وعروج بر آسمانها ووصول بمرتبه قربت بأحاديث
صحیحه مشهوره كه قريبست بحد تواتر ثابت كشت وهر كه انكار آن كند ضال ومبتدع
باشد“(تفسیرروح
البیان،ج05،ص104،دارالفکر،بیروت)
فقہ
اکبرمیں ہے ”وخبرالمعراج حق فمن ردہ فھوضال مبتدع“اس
کی شرح میں ملاعلی قاری علیہ الرحمۃ
تحریرفرماتے ہیں :”(وخبرالمعراج )ای بجسدالمصطفی
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم یقظۃ الی
السماء ثم الی ماشاء اللہ تعالی من المقامات العلی(حق)ای
حدیثہ ثابت بطرق متعددۃ(فمن ردہ) ای ذلک الخبرولم یومن
بمقتضی ذلک الاثر(فھوضال مبتدع)ای جامع بین الضلالۃ
والبدعۃ“ ترجمہ:اورمعراج
یعنی مصطفی کریم صلی اللہ تعالی علیہ
وآلہ وسلم کابیداری کی حالت میں آسمان کی طرف
اورپھر بلند مقامات سے جہاں اللہ تعالی نے چاہاوہاں تشریف لے جانے
کی خبریعنی حدیث حق ہے یعنی طرق متعددہ سے
ثابت ہے پس جس نے اس خبرکاردکیااوراس کے مقتضی پرایمان نہ
لایاتووہ گمراہ بدعتی ہے یعنی گمراہی اوربدعت
کاجامع ہے ۔ (فقہ اکبرمع الشرح،بحث فی ان المعراج حق،ص189، مطبوعہ
کراچی)
شرح
العقائدالنسفیہ میں ہے : ”والمعراج لرسول اللہ عزوجل
وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فی الیقظۃ
بشخصہ الی السماءثم الی ماشاء اللہ تعالی من العلی حق
ای ثابت بالخبرالمشہورحتی ان منکرہ یکون مبتدعا“ترجمہ:اوررسول
اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کےلیے
بیداری میں جسم کے ساتھ آسمان تک پھرجن بلندمقامات تک اللہ
تعالی نے چاہاوہاں تک معراج حق ہے یعنی خبرمشہورسے ثابت ہے
یہاں تک کہ اس کاانکارکرنے والابدعتی ہوگا۔(شرح
العقائدالنسفیۃ،مبحث المعراج الخ،ص175،مطبوعہ لاھور)
فتح
القدیروتبیین الحقائق میں ہے :”ومنكر المعراج إن أنكر
الإسراء إلى بيت المقدس فكافر، وإن أنكر المعراج منه فمبتدع “ترجمہ:اورمعراج
کامنکراگربیت مقدس تک رات کوجانے کاانکارکرے تووہ کافرہے اور اگروہاں سے
معراج کاانکارکرے توبدعتی ہے ۔(فتح القدیر،باب
الامامۃ،ج01،ص350،دارالکفر،بیروت)
النبراس
میں ہے:”الجمھورعلی ان
منکرالحدیث المتواتر کافر و منکر المشھور فاسق ومنکر خبرالاحاداثم ھذا ھو
الصحیح“ترجمہ:جمہوراس
پرہیں کہ حدیث متواترکاانکارکرنے والاکافرہے اورحدیث
مشہورکاانکارکرنے والافاسق (اعتقادی یعنی گمراہ)ہے اور
اخباراحادکاانکارکرنے والاگنہگارہے ،یہی صحیح ہے ۔(النبراس شرح شرح
العقائد،ص292،مطبوعہ ملتان)
فتاوی
رضویہ میں ہے:”وتحقیق المقام علی ما الھمنی
الملک العلام ان العلم القطعی یستعمل فی معنیین
۔ احدھما : قطع الاحتمال علی وجہ الاستیصال بحیث
لایبقی منہ خبرولا اثروھذاھو الاخص الاعلی کما فی المحکم
والمتواتر وھو المطلوب فی اصول الدین فلا یکتفی
فیھا بالنص المشہور ۔والثانی : ان لایکون ھناک احتمال ناش
من دلیل وان کان نفس الاحتمال باقیاً کالتجوز و التخصیص
وسائر انحاء التاویل کما فی الظواھر والنصوص والاحادیث
المشہورۃ والاول یسمی علم الیقین و مخالفہ کافر
علی الاختلاف فی الاطلاق کما ھو مذہب فقہاء الاٰفاق ،
والتخصیص بضروریات الدین ما ھو مشرب العلماء المتکلمین
۔ و الثانی علم الطمانیۃ ومخالفہ مبتدع ضال ولا مجال
الی اکفارہ“ترجمہ:اور مقام کی تحقیق اس طور پر جو مجھے
اللہ ملک العلام نے الہام کیا یہ ہے کہ علم قطعی دو معنی
میں مستعمل ہوتا ہے۔ ایک تویہ کہ احتمال جڑ سے منقطع
ہوجائے بایں طور کہ اس کی کوئی خبر یا اس کا کوئی
اثر باقی نہ رہے۔ اور یہ اخص اعلیٰ ہے جیسا
کہ محکم اور متواتر میں ہوتا ہے۔ اور اصولِ دین میں
یہی مطلوب ہے۔ تو اس میں نصِ مشہور پر کفایت
نہیں ہوتی۔دوسرا :یہ کہ اس جگہ ایسا احتمال نہ ہو
جو دلیل سے ناشی ہو اگرچہ نفس احتمال باقی ہو۔ جیسے
کہ مجاز اور تخصیص ۔ اور باقی وجوہِ تاویل ۔
جیسا کہ ظواہر اور نصوص اور احادیث مشہورہ میں ہے۔ اور
پہلی قسم کا نام علم یقین ہے اور اس کا مخالف کافر ہے علماء
میں اختلاف کے بموجب مطلقاً جیسا کہ فقہائے آفاق کا مذہب ہے
یا ضروریات دین کی قید کے ساتھ یہ حکم مخصوص ہے
جیسا کہ علمائے متکلمین کا مشرب ہے اور دوسرے کا نام علم طمانیت
ہے اور اس کا مخالف بدعتی و گمراہ ہے اور اس کو کافر کہنے کی مجال
نہیں۔“ (فتاوی
رضویہ،ج28،ص667،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
شرح
العقائدالنسفیۃ میں علامہ سعدالدین تفتازانی
علیہ الرحمۃ ایک مقام پرتحریرفرماتے ہیں :”فالاسراء وھومن المسجدالحرام
الی بیت المقدس قطعی ثبت بالکتاب والمعراج من الارض الی
السماء مشہور و من السماء الی الجنۃ اوالی العرش اوغیرذلک
احاد“ترجمہ:پس
اسراء اوروہ ہے مسجدحرام سے بیت المقدس تک جانا ، قطعی ہے جوکتاب اللہ
سے ثابت ہے اورزمین سے آسمان تک معراج مشہورہے اور آسمان سے جنت تک یا
عرش تک یااس کے علاوہ کی طرف جانااخباراحادسے ثابت ہے ۔(شرح
العقائدالنسفیۃ،مبحث المعراج الخ،ص176،مطبوعہ لاھور)
یہاں
آسمان سے جنت کی طرف جانے میں جولفظ آسمان کہا ، تواس سے فقط آسمان
ہی مرادنہیں بلکہ آسمان اوراس کے اوپرکے وہ مقامات جہاں اللہ
تعالی نے لے جاناچاہا، جن کاذکراحادیث مشہورہ میں ہے ، وہ
مرادہیں کیونکہ احادیث مشہورہ میں فقط آسمان کاہی
ذکرنہیں بلکہ اس کے علاوہ بلندمقامات کابھی ذکرہے ۔
جیساکہ اوپرگزرا،ہاں خاص جنت یاعرش وغیرہ پرجانااحادیث
احادسے ثابت ہے توتیسری شق میں خاص جنت یاعرش وغیرہ
کااحادسے ثابت ہونابیان کرنامقصودہے۔اس بات کی وضاحت یہ
ہے کہ:شرح عقائدکی اس عبارت : ”ومن السماء الی
الجنۃ اوالی العرش اوغیرذلک احاد“پر اعتراض ہوتاہے کہ شرح
عقائدکی اس سے پچھلے صفحے پرجوعبارت ہے : ”الی السماءثم
الی ماشاء اللہ تعالی من العلی حق ای ثابت بالخبرالمشہور“اس
سے توثابت ہوتاہے کہ آسمان سے اوپرکے بلندمقامات تک جانااحادیث مشہورہ سے
ثابت ہے جبکہ اس عبارت سے ثابت ہوتاہے کہ آسمان سے اوپرجاناخبراحادسے ثابت
ہےتویہ تودونوں عبارات میں تعارض ہے ۔اس کاجواب علامہ
عبدالعزیز پرھاروی علیہ الرحمۃ نے یہ دیاکہ
گزشتہ صفحے میں جوبیان کیاگیاکہ آسمان سے بلندمقامات تک جانااحادیث
مشہورہ سے ثابت ہے ، وہ حق ہے اوراس عبارت میں خبراحادسے ثبوت کاتعلق خاص
جنت یاعرش کے ساتھ ہے ۔چنانچہ نبراس کی عبارت یہ ہے
: ”واعترض علیہ بانہ
ینافی ماسبق من قولہ ای ثابت بالخبر المشہور واجیب بان
المشہور ھوالعروج من السماء الی مافوقہاوالاحادھوخصوصیۃ
الجنۃ اوالعرش“(النبراس شرح شرح العقائد، ص295،مطبوعہ ملتان)
اسی
طرح حاشیہ خیالی میں بھی شرح عقائدکی اس
عبارت :”الی السماءثم
الی ماشاء اللہ تعالی من العلی حق ای ثابت بالخبر المشہور“کے
تحت لکھاہے :”یفھم منہ ان المعراج
من السماء ایضامشہور وماثبت بطریق الاحادھوخصوصیۃ
ماالیہ من الجنۃ اوغیرھا“ترجمہ:اس سے سمجھاجاتاہے کہ
آسمان سے معراج کاسفربھی مشہورہے اورجوطریق احادسے ثابت ہے وہ خاص وہ
ہے جس کی طرف اشارہ کیاگیایعنی جنت یااس کے
علاوہ ۔(الخیالی
علی شرح العقائد،بیان حقیقۃ المعراج لمحمد علیہ
الصلوۃ والسلام ،ص142،مطبوعہ پشاور)
ملاعبدالحکیم
سیالکوٹی حاشیہ مولوی برخیالی میں
خیالی کی عبارت”وماثبت بطریق“کے تحت تحریرفرماتے
ہیں : ”یعنی کون
المعراج من السماء الی العلی ایضامشہورالیس مخالفالماذکرہ
الشارح فیمابعدمن قولہ ومن السماء الی الجنۃ اوالی العرش
اوالی غیرذلک احادلان ماثبت بطریق الاحادھو خصوصیۃ
ماذھب الیہ من الجنۃ اوالی العرش اوالی اطراف العالم
لاالی مطلق العلی حتی ینافیہ“ترجمہ:یعنی
آسمان سے بلندمقامات تک کی معراج کابھی مشہور ہونا اس کے مخالف
نہیں ہے جس کوشارح نے اس کے بعداپنے اس قول میں ذکرکیاہے”ومن السماء الی
الجنۃ اوالی العرش اوالی غیرذلک احاد“ کیونکہ
جوبطریق احادثابت ہے وہ خاص وہ ہے جس کی طرف تشریف لے گئے
یعنی جنت یاعرش یااطراف عالم نہ کہ مطلق بلندمقامات ،کہ
یہ اس کے منافی ہو۔(حاشیہ مولوی
برخیالی،ص253،254،مطبع ھند)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟