Meraj Jismani Thi Ya Rohani

معراج جسمانی تھی یا  روحانی؟  اور جسمانی معراج کے منکر کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-5510

تاریخ اجراء: 03جمادی الاولی1439ھ21جنوری2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ(1)شب معراج کو سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معراج جسمانی تھی یا روحانی؟(2) اگر کوئی جسمانی معراج کا انکار کرے ،تو اس کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بیداری کی حالت میں جسمانی معراج نصیب ہوئی، اس پہ قرآنی آیت و صحیح احادیث دال (دلالت کرتی) ہیں۔  نیز جمہور صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، فقہاء، محدثین اور متکلمین کا مذہب اور اہل سنت و جماعت کا یہی عقیدہ ہے۔

   اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا الَّذِیۡ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الْبَصِیۡرُ ترجمہ کنز العرفان:’’ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کروائی جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں،تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔‘‘( پارہ 15، سورہ بنی اسرائیل، آیت 1)

   اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر خازن، جلالین اور حاشیہ صاوی میں ہے: ’’والحق الذی علیہ اکثر الناس ومعظم السلف وعامۃ الخلف من المتاخرین من الفقھاء والمحدثین والمتکلمین انہ اسری بروحہ وجسدہ صلی اللہ علیہ وسلم، ویدل علیہ قولہ سبحانہ وتعالی: ﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا ﴾، ولفظ العبد عبارۃ عن مجموع الروح والجسد، والاحادیث الصحیحۃ التی تقدمت تدل علی صحۃ ھذا القول‘‘ترجمہ: حق وہی ہے جس پر کثیر لوگ، اکابر علماء اور متاخرین میں سے عام فقہاء، محدثین اور متکلمین ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جسم اور روح مبارک کے ساتھ سیر فرمائی اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کر تا ہے : ’’ پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا‘‘ کیونکہ لفظِ عبد روح اور جسم دونوں کے مجموعے کا نام ہے، یونہی ( ماقبل) ذکر کردہ احادیث صحیحہ بھی اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہیں ۔( تفسیر خازن، پارہ 15، سورہ بنی اسرائیل، تحت آیت 1، جلد 3، صفحہ 158، مطبوعہ  پشاور)

   نسیم الریاض  میں ہے:’’(انہ اسراء بالجسد والروح فی القصۃ کلھا) ای فی قصۃ الاسراء الی المسجد الاقصی والسموات، (وعلیہ تدل الآیۃ) الدالۃ علی شطرھا صریحاً (وصحیح الاخبار) المشھور المستفیضۃ الدالۃ علی عروجہ صلی اللہ علیہ وسلم الی السماء، والاحادیث الاحاد الدالۃ علی دخولہ الجنۃ ووصولہ الی العرش او طرف العالم کما سیاتی کل ذلک بجسدہ یقظۃ‘‘ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے واقعہ معراج میں یعنی مسجد اقصی سے آسمانوں تک جسم و روح مبارک کے ساتھ سیر فرمائی، جس کے ایک حصے پر آیت کریمہ واضح طور پہ دلالت کرتی ہےاور آسمانوں تک کی سیر پر حدیث مشہور مستفیض دلالت کرتی ہے، نیز جنت میں داخل ہونے، عرش پہ جانے یا عالم کے اطراف میں  جانے پہ خبر واحد دلالت کرتی ہے، جیسا کہ آگے آئے گااور یہ سب بیداری میں جسم مبارک کے ساتھ تھا ۔( نسیم الریاض شرح الشفاء لقاضی عیاض، جلد 2، صفحہ 269،مطبوعہ  ملتان)

   مکتوبات امام ربانی و فتاوی رضویہ میں ہے : ’’معراج شریف یقیناً قطعاً اسی جسم مبارک کے ساتھ ہوئی نہ کہ فقط روحانی، جو ان کی عطا سے ان کے غلاموں کو بھی ہوتی ہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے: ﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا ( یعنی ) پاکی ہے اسے جو رات میں لے گیا اپنے بندہ کو، یہ نہ فرمایا کہ لے گیا اپنے بندہ کی روح کو۔‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 15، صفحہ 74، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   مقالات کاظمی میں ہے : ’’جمہور علماء، صحابہ، تابعین و تبع تابعین اور ان کے بعد محدثین و فقہا اور متکلمین سب کا مذہب یہ ہے کہ اسراء اور معراج دونوں بحالت بیداری اور جسمانی ہیں اور یہی حق ہے۔‘‘( مقالات کاظمی، جلد 1، صفحہ 114، مکتبہ ضیائیہ، راولپنڈی)

    (2) معراج شریف کا مطلقاً انکار کفر ہے، کیونکہ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کی معراج قطعی اور کتاب اللہ سے ثابت ہے، البتہ جو معراج کو تسلیم کرے لیکن فقط روحانی کا قائل ہو، تو وہ خطا پر ہے اور فی زمانہ اس کا انکار نہیں کرتے مگر بد مذہب و گمراہ لوگ۔

      معراج کا مطلقاً انکار کفر ہے، چنانچہ شرح عقائد نسفیہ پھر نبراس میں ہے : ’’والمعراج لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الیقظۃ بشخصہ الی السماء، ثم الی ما شاء اللہ تعالی من العلی حق ای ثابت بالخبر المشھور حتی ان منکرہ یکون مبتدعاً،۔۔ فالاسراء ھو من المسجد الحرام الی البیت المقدس قطعی ای یقینی ثبت بالکتاب ای القرآن ویکفر منکرہ۔۔ الخ‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج بیداری کے عالم میں  جسم اقدس کے ساتھ آسمانوں کی طرف ہوئی، پھر آگے جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تشریف لے جانا خبرِ مشہور سے ثابت ہے، حتی کہ اس کا منکر بدعتی ہے، ۔۔ مسجد حرام سے بیت المقدس تک کی سیر قطعی یقینی اور کتاب اللہ سے ثابت ہے، اور اس کا منکر کافر ہے۔( النبراس، صفحہ 292 تا 295، مطبوعہ  پشاور)

   نسیم الریاض میں ہے: ’’(ذھب معظم السلف والمسلمین) عطف للعام علی الخاص، وفیہ اشارۃ الی ان خلافہ لا ینبغی لمسلم اعتقادہ ( الی انہ اسراء بالجسد (مع الروح) وفی الیقظۃ‘‘ ترجمہ: (اکابر علماء و مسلمین اس طرف گئے ہیں ) یہ عام کا خاص پر عطف ہے اور اکابر علماء و مسلمین کہنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس کے خلاف کا اعتقاد رکھنا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ ( کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت بیداری میں جسم اور روح مبارک کے ساتھ سیر فرمائی )۔( نسیم الریاض شرح الشفاء لقاضی عیاض، جلد 2، صفحہ 267، مطبوعہ  ملتان)

    فتاوی رضویہ میں ہے: ’’۔۔ ان عظیم وقائع نے معراج مبارک کا جسمانی ہونا بھی آفتاب سے زیادہ واضح کردیا، اگر وہ کوئی روحانی سیر یا خواب تھا تواس پر تعجب کیا؟ زید و عمر و خواب میں حرمین شریفین تک ہو آتے ہیں اور پھر صبح اپنے بستر پر ہیں۔ رؤیا کے لفظ سے استدلال کرنا اور ﴿اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ نہ دیکھنا صریح خطا ہے۔ رؤیا بمعنی رویت آتا ہے اور فتنہ و آزمائش بیداری ہی میں ہے نہ کہ خواب میں، ولہذا ارشاد ہوا: ﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا ( یعنی ) پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو لے گیا ۔‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 29، صفحہ 635، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم