Mazar Par Jana Kaisa?Kya Mazar Par Jane Se Koi Faida Hasil Hota Hai?

 

مزارات پر جانا کیسا ہے اور کیا وہاں جانے سے فائدہ ہوتا ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8643

تاریخ اجراء: 12 جُمَادَی الاُوْلیٰ1445ھ/26 نومبر 2023

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ اولیائے کرام کے مزارات پر جانا کیسا ہے، نیز وہاں جانے سے کیا حاصل ہوتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مزارتِ اولیاء منبع ِانوار ومظہرِ تجلیات ہوتے ہیں۔  وہاں خدا کی خاص رحمتیں اُترتی ہیں،  حاضری دینے والے اہلِ ذوق دل کی راحت اور روح کا چین محسوس کرتے ہیں۔ اُن کی بارگاہوں میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دستِ دعا دراز کرنے سے بے شمار دینی و دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ائمہ دین اور  اسلاف ، نیک بندوں کے مزارات  پر حاضریاں دیتے اور دین ودنیا کے اُمور میں خیر وصلاح پاتے تھے،  لہٰذا ہر خلافِ شرع طریقے سے بچتے ہوئے باادب انداز میں بزرگانِ دین کے مزارات پر حاضری دینا، وہاں بیٹھ کر ذکر  کرنا، درود پڑھنا، تلاوتِ قرآن کرنا، خدا کو یاد کرنا، اپنی آخرت کی فکر کرنا اور  بزرگانِ دین کے توسُّل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنا، یقیناً نورِ قلبی  کو جِلا بخشنے والا، روحانیت بڑھانے والا، عرفانِ الہی میں ترقی دینے والا اور   قلبی وباطنی  تزکیہ کرنے والا عملِ مستحسن  ہے ۔

   مدینہ منورہ میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عادتِ مبارکہ رہی کہ آپ ہر سال  شہدائے اُحد کی قبورِ مبارکہ پر تشریف لے جاتے تھے، چنانچہ ”المصنف لعبد الرزاق “ میں ہے:’’ كان النبي صلى اللہ عليه وسلم يأتي قبور الشهداء عند رأس الحول، فيقول:’’ السلام عليكم بما صبرتم، فنعم عقبى الدار‘‘، قال: وكان أبو بكر، وعمر، وعثمان، يفعلون ذلك‘‘ ترجمہ: نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سال کے شروع  میں شہدائےاُحد کے مزارات پر تشریف لے جایا کرتے تھے اور فرماتے:’’ السلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار “راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر ، عمر، عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی بھی عادتِ مبارکہ یہی تھی اور وہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔(المصنف لعبد الرزاق، جلد 04، صفحہ 289، مطبوعہ  دار التاصیل)

   دوسری روایت میں خود ترغیب دیتے ہوئے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مطلقاً ارشاد فرمایا : كنت نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها؛ فإنها تزهد في الدنيا، وتذكر الآخرة ‘‘ ترجمہ:میں پہلے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے اور وہاں جانے سے منع کرتا تھا، لیکن اب تم زیارتِ قبور کے لیے جایا کرو، کیونکہ یہ حاضری ِ قبور دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی یاد پیدا کرتی ہے۔(سنن ابن ماجہ، جلد01، صفحہ501، مطبوعه دار احياء الکتب العربیہ)

      بزرگانِ دین کےمزارات پر جاکرایصالِ ثواب کرنااوران کے وسیلے سے دعائیں مانگنااسلاف کاطریقہ  رہا ہے اور وہ اِس حاضری سے اپنی دینی ودنیوی حاجات کے جلد  بَر آنے کی اُمید رکھتے تھے، چنانچہ شیخ الاسلام علامہ احمد بن محمد ہَیْتَمِی مکی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:974ھ/1567ء) لکھتےہیں:’’لم یزل العلماء  و ذوو الحاجات  یزورون قبرہ و یتوسلون عندہ  فی قضاء حوائجھم  ویرون نجح  ذالک  منھم الامام الشافعی  رحمہ اللہ لما کان ببغداد  فانہ جاء عنہ انہ قال انی لا تبرک بابی حنیفۃ  واجی الی قبرہ فاذا عرضت  لی حاجۃ صلیت رکعتین و جئت  الی قبرہ و سالت اللہ عندہ فتقضی سریعا‘‘ ترجمہ:ہمیشہ سے علماءاورحاجت مند لوگ امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کےمزار کی زیارت کرتےاوراپنی حاجتیں پوراکرنے کے لیے آپ کا وسیلہ پیش کرتے رہے ہیں  اور اسے اپنے لیے باعث شرف سمجھتے ہیں،انہی علما میں سے امام شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ بھی ہیں، جن کے متعلق یہ بات مروی ہےکہ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جب میں بغدادمیں قیام پذیر تھا،  تو  امامِ اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے برکات کا حصول کرتا تھا۔جب مجھےکوئی حاجت وضرورت درپیش ہوتی، تو میں امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مزار پر آتااوردورکعتیں پڑھتا،پھر ان کی قبر  مبارک  پرحاضری دیتا اوروہاں اللہ پاک سےدعاکرتا،توفوراًمیری حاجت پوری ہو جاتی۔(الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان، صفحہ94، مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   اِس عبارت سے معلوم ہوا کہ مزارات کی حاضری اور حصولِ برکات کا نظریہ  کوئی جدید نہیں ، بلکہ  150 ہجری (قرونِ اُولیٰ مبارکہ)میں پیدا ہونے والے جلیل القدر، مرجعِ خلائق حضرت امام شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا عمل مبارک بھی یہی تھا۔

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ/1836ء) نے اِس موضوع پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے لکھا:’’هل تندب الرحلة لها كما اعتيد من الرحلة إلى زيارة خليل الرحمن وأهله وأولاده، وزيارة السيد البدوي وغيره من الأكابر الكرام؟ لم أر من صرح به من أئمتنا، ومنع منه بعض أئمة الشافعية إلا لزيارته صلى اللہ عليه وسلم قياسا على منع الرحلة لغير المساجد الثلاثة. ورده الغزالي بوضوح الفرق، ۔۔۔وأما الأولياء فإنهم متفاوتون في القرب من اللہ  تعالى، ونفع الزائرين بحسب معارفهم وأسرارهم. قال ابن حجر في فتاويه: ولا تترك لما يحصل عندها من منكرات ومفاسد كاختلاط الرجال بالنساء وغير ذلك لأن القربات لا تترك لمثل ذلك، بل على الإنسان فعلها وإنكار البدع، بل وإزالتها إن أمكن‘‘ ترجمہ:کیا زیارتِ قبور کے لیے سفر مستحب ہے، جیسا کہ  خلیل الرحمن، اُن کے  اہل وعیال ، سید بدوی اور دیگر اکابر اولیائے کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْهم کے مزارات پر حاضری کا رواج ہے؟ میں نے اپنے ائمہ میں سے کسی کی تصریح نہیں دیکھی، البتہ بعض شافعی ائمہ نے زیارتِ درِ مصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےعلاوہ دیگر قبور پر حاضری سے منع کیا ہے اور اِس کی بنیاد مساجدِ ثلاثہ  کے علاوہ دیگر مساجد کی طرف سفر سے ممانعت والی روایت کو بنایا ہے، لیکن  امام غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے دونوں کے درمیان واضح فرق بیان کرتے ہوئے شوافع کی اِس دلیل کا رد کیا  ہے۔ بہر حال اولیائے کرام قربِ خداوندی کے مختلف درجات پر فائز ہوتے ہیں، نیز اپنی درگاہوں پر حاضر ہونے والے زائرین کو حسبِ معرفتِ الہی اور کشفِ اسرار ِخداوندی نفع بھی پہنچاتے ہیں۔امام ابنِ حجر  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے فتاویٰ (الفتاویٰ الکبریٰ الفقھیۃ) میں فرمایا:مزارات پر ہونے والے غیر شرعی اُمور یا دیگر مفاسد مثلاً: عورتوں مردوں کے اختلاط کے سبب حاضری ِ مزاراتِ اولیاء کو ہرگز نہیں چھوڑا جائے گا، کیونکہ نیکی کے کاموں کو اِس نوعیت کے غیر شرعی امور کے سبب اصلاً ترک نہیں کیا جاتا، بلکہ بندے کو چاہیے کہ نیکی کا کام جاری رکھے اور نت نئی خرابیوں  کا سدِ باب کرے، بلکہ جس حد تک ممکن ہو، قلع قمع کرے۔ (ردالمحتار مع درمختار، جلد 05،مطلب فی زیارۃ القبور،  صفحہ 366 ، مطبوعہ   دمشق)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم