Mazar Par Hazri Dene Ka Tarika Kya Hai ?

مزار پر حاضری دینے کا طریقہ

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7734

تاریخ اجراء: 02رجب المرجب1443ھ/04فروری  2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ  مزاراتِ اولیاء پر حاضری کا طریقہ کیا ہے ۔  نیز مزار شریف   یا ان کے اوپر رکھی  ہوئی چادر  کو  چوم سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مزارتِ اولیاء منبع ِانوار و تجلیات ہوتے ہیں  ،ان پر حاضری دینے سے دلوں کو راحت   ملتی ہے اور بے شمار دینی و دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں ، لہٰذا ہر خلافِ شرع طریقے سے بچتے ہوئے باادب انداز میں حاضری دینا  مستحسن یعنی اچھا عمل ہے ۔ مزار شریف پر حاضری کا طریقہ یہ ہے کہ صاحب ِ مزار کے پائنتی یعنی پاؤں کی جانب سے آئے اور مواجہہ یعنی چہرے کی طرف  مزار سے چار ہاتھ  کے فاصلے پر کھڑا ہو اور درمیانی آواز میں سلام عرض کرے  ،پھر قرآن خوانی  وغیرہ ، خواہ فاتحہ شریف اور  چند بار درود پاک ہی پڑھ کر ایصال ِ ثواب کرے اور رب تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں  صاحبِ مزار  کے وسیلے سے دعا مانگے،  پھر  سلام کرکے یونہی واپس آجائے ، جہاں تک مزارشریف یا اس کے اوپر رکھی ہوئی چادر چومنے  کی بات ہے ، تو اس سے بچنا چاہیےکہ علمائے کرام  فرماتے ہیں :ادب یہی ہے کہ مزار شریف سے  چار ہاتھ  کے  فاصلے پر   کھڑ ے   ہو کر حاضری  دی جائے اور مزار  شریف  چومنے سے بچا جائے ۔

   مزارات پر جانا مستحسن عمل ہے ،  نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شہدائے احد  کے مزار پر   ہر سال تشریف لے جایا کرتے تھے  ، چنانچہ مصنف عبد الرزاق میں ہے: کان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  یاتی قبور الشھدا ء  عند راس الحول  فیقول السلام علیکم  بما  صبرتم فنعم عقبی الدار قال : وکان ابو بکر و عمر و عثمان  یفعلون ذلک ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سال کے شروع  میں شہداء ِ احد کے مزارات پر تشریف لے جایا کرتے تھے اور فرماتے:’’ السلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر ، عمر، عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْبھی ایسا ہی  کیاکرتے تھے ۔ (مصنف عبد الرزاق ،کتاب الجنائز ، باب زیارۃ القبور ، جلد3،صفحہ 381،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ،  بیروت)

   بزرگانِ دین کےمزارات پر جاکرایصالِ ثواب کرنااوران کے وسیلے سے دعائیں مانگنااسلاف کاطریقہ  رہا ہے،جیسا کہ شیخ شہاب  الدین  احمد بن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات :972ھ)لکھتےہیں :’’لم یزل العلماء  و ذوو الحاجات  یزورون قبرہ و یتوسلون عندہ  فی قضاء حوائجھم  ویرون نجح  ذالک  منھم الامام الشافعی  رحمہ اللہ لما کان ببغداد  فانہ جاء عنہ انہ قال انی لا تبرک بابی حنیفۃ  واجی الی قبرہ فاذا عرضت  لی حاجۃ صلیت رکعتین و جئت  الی قبرہ و سالت اللہ عندہ فتقضی سریعا ترجمہ:ہمیشہ سے علماءاورحاجت مند لوگ امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کےمزار کی زیارت کرتےاوراپنی حاجتیں پوراکرنے کے لیے آپ کا وسیلہ پیش کرتے رہے ہیں  اور اسے اپنے لیے باعث شرف سمجھتے ہیں،انہی علما میں سے امام شافعی رحمۃاللہ علیہ بھی ہیں، جن کے متعلق یہ بات مروی ہےکہ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں :جب میں بغدادمیں قیام پذیر تھا،  تو  امامِ اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  سےبرکت حاصل کیاکرتاتھا ،جب مجھےکوئی حاجت پیش آتی تو میں امام اعظم کے مزار پر آتااوردورکعتیں پڑھتا،پھر ان کی قبر  مبارک  پرحاضری دیتا اوروہاں اللہ پاک سےدعاکرتا،توفوراًمیری حاجت پوری ہو جاتی  ۔ (الخیرات الحسان،صفحہ72،مطبوعہ مکتبۃالسعادۃ،مصر)

   مزار پرحاضری کا طریقہ بیان کرتے ہوئے سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: مزارات ِشریفہ پر  حاضرہونے میں پائنتی کی طرف سے جائے اور کم ازکم چار ہاتھ کے فاصلے پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسط آواز بادب عرض کرے ’’السّلام علیک یا سیدی ورحمۃ ﷲ وبرکاتہ ‘‘ پھر درودغوثیہ تین بار، الحمد شریف ایک ، آیۃ الکرسی ایک بار، سورہ اخلاص سات بار، پھر درود غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے ،  تو سورہ یٰسں او رسورہ ملک بھی پڑھ کر اللہ عزوجل سے دعا کرے کہ الہی ! اس قراءت  پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے، نہ اتنا جو میرے عمل کے قابل ہے او راسے میری طرف سے اس بندۂ مقبول کو نذر پہنچا، پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو ا س کے لیے دعا کرے اورصاحب مزار کی روح کو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قراردے ، پھر اُسی طرح سلام کرکے واپس آئے، مزار کو نہ ہاتھ لگائے، نہ بوسہ دے اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ۔ (فتاوی رضویہ  ، جلد  9، صفحہ  522، مطبوعہ  رضا  فانڈیشن  ، لاھور)

   اور مزار کو بوسہ دینے کے متعلق شیخِ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی حنفی بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1052ھ) لکھتےہیں:  ہاتھ سےقبر کو نہ چھوئےاور نہ اُسے  بوسہ دے  اور نہ جھکےاور چہرے پر قبر کی مٹی  نہ ملےکہ یہ نصاریٰ کی عادت   ہے۔(مترجم اشعۃ اللمعات ،  جلد  2 ، صفحہ 924، مطبوعہ  فرید  بک سٹال)

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : جمہور علماء(قبر کو بوسہ دینا)  مکروہ جانتے ہیں ، تو اس سے احتراز ہی چاہیے۔  (فتاوی رضویہ  ، جلد  9، صفحہ  526، مطبوعہ  رضا  فانڈیشن  ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم