Marhoom Walidain Ki Taraf Se 1 Umrah Karsakte Hain Ya 2 Karne Honge ?

مرحوم والدین کی طرف سے 1 عمرہ  کرسکتے ہیں یا 2 کرنےہونگے ؟

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2218

تاریخ اجراء: 08جمادی الاول1445 ھ/23نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میں اس وقت مکہ  مکرمہ میں ہوں،مجھے اپنے والدین کےلئے عمرہ کرنا ہے،وہ دونوں وفات پاچکے ہیں،توکیا میں اپنے  مرحوم والدین کی  طرف سے ایک عمرہ کرسکتی ہوں یا پھرمجھے  اُن دونوں کی طرف سے ،دو عمرے کرنا  ہی ضروری ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دوسرےکی طرف سےعمرہ کرنا،درحقیقت اُسےعمرہ کاثواب پہنچاناہے،اورایک عمل کاثواب ایک سے زیادہ افراد کو پہنچایاجاسکتا ہے،لہذا   ایک عمرہ    دونوں مرحوم ماں باپ کے ایصالِ ثواب کےلئےکرسکتے ہیں۔ ہر ایک  کےلئےعلیحدہ علیحدہ عمرہ کرنا  ضروری نہیں۔ ہاں!  اگر والدین میں سے ہر ایک کےلئے خاص طور پر علیحدہ علیحدہ،ایک ایک عمرہ کیا جائے، تویہ بھی درست ہے۔

   رد المحتار    علی الدر المختارمیں ہے:’’والظاھر أنہ لا فرق بین أن ینوی بہ  عند الفعل للغیر أو یفعلہ لنفسہ ثم یجعل ثوابہ  لغیرہ‘‘ ترجمہ:اور ظاہر یہ ہے کہ (کسی نیک عمل کا ثواب پہنچانے کیلئے )اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ اس نیک عمل کو  کرتے وقت ہی دوسرے کیلئے نیت کرے یا عمل تو وہ پہلے اپنی نیت سے کرے پھر اس کا ثواب دوسرے کو ایصال کردے۔

   ایک عمرہ ایک سے زیادہ افراد کے ایصال ثواب کےلئےہوسکتا ہے،چنانچہ رد المحتار  ہی میں اسی مقام پر ہے:’’فی زکاۃ التاترخانیۃ عن المحیط:الأفضل لمن یتصدق نفلا أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات لأنھا تصل الیھم ولا ینقص من اجرہ شئ‘‘ ترجمہ:تاترخانیہ کے کتاب الزکوۃ میں محیط کے حوالے سے ہے:کہ جو نفلی صدقہ کرے اس کیلئے افضل ہے کہ وہ تمام مؤمنین و مؤمنات کی نیت کرلے اس لئے کہ اس کا ثواب ان سب کو پہنچے گا اور اس کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد3،صفحہ 180،مطبوعہ :کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:’’نماز ،روزہ،حج ،زکوۃاور ہر قسم کی عبادت اور ہر عمل نیک فرض و نفل کا ثواب مردوں کو پہنچا سکتا ہے ،ان سب کو پہنچے گااور اس کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی بلکہ اس کی رحمت سے امید ہے کہ سب کو پورا پورا ملے یہ نہیں کہ اسی ثواب کی تقسیم ہو کر ٹکڑا ٹکڑا ملے۔بلکہ امید ہے کہ اس ثواب پہنچانے والے کیلئے ان سب کے مجموعے کے برابر  ملے‘‘۔(بھار شریعت،جلد1،حصہ4،صفحہ 850،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم