مجیب: ابو احمد محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-1316
تاریخ اجراء: 11جمادی الاولیٰ1444 ھ/07دسمبر2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میری نظر سے یہ حدیث پاک گزری ہے ا سکی تشریح فرمادیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے عبد مناف کے بیٹو اپنی جانوں کو اللہ سے خرید لو اے عبد المطلب کے بیٹو اپنی جانوں کو اللہ سے خرید لو اے زبیر بن العوام کی والدہ رسول اللہ کی پھوپھی اے فاطمہ بنت محمد تم دونوں اپنی جانوں کو اللہ عزوجل سے بچا لو میں تمہارے لیے اللہ کی بارگاہ میں کسی چیز کامالک نہیں ہوں تم دونوں میرے مال سے جتنا چاہو مانگ سکتی ہو ؟ ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مذکورہ حدیث مبارکہ میں حضو ر اکرم صلی ا للہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلے اور خاندان کو دین ِاسلام قبول کرنے کی خصوصی تبلیغ فرمائی ہے کہ تم لو گ ایمان قبول کر لو تاکہ تم جہنم کی آگ سے محفوظ رہ سکو اوراپنی بیٹی اور پھوپھی سے جو فرمایا کہ میں تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ اگر تم نے ایمان قبول نہ کیا اور آخرت میں سزا کی مستحق ہو گئیں تو وہ سزا میں تم سےدور نہیں کر سکتا اور تم عذاب الہی سے نہیں بچ سکتیں ۔ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ اس طرح کی حدیث مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی اے فاطمہ اگر تم نے ایمان قبول نہ کیا اور تم آخرت میں سز ا کی مستحق ہوگئیں تو وہ سزا میں تم سے دفع نہیں کرسکتا اور تم عذاب الٰہی سے نہیں بچ سکتیں۔(مراۃ المناجیح ،جلد 7، صفحہ 220،نعیمی کتب خانہ )
تفسیرصراط الجنان میں ہے "بکثرت آیات اور اَحادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفع و نقصان آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قدرت اور اختیار میں دیا ہے جیسے ایک مقام پر اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے ’’ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ‘‘ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔(التوبہ:۷۴)
اس سے معلوم ہو اکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی لوگوں کو غنی اور مالدار بناتے ہیں اور دوسروں کو غنی وہی کر سکتا ہے جسے غنی کرنے کی قدرت اور اختیارحاصل ہو۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۙ-وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ‘‘ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور (کیا اچھا ہوتا) اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے ۔ عنقریب اللہ اور اس کا رسول ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں۔(توبہ:۵۹)
اس سے معلوم ہو اکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دیا بھی ہے اور دیں گے بھی اور دیتا وہی ہے جس کے پاس خود ہو۔
صحیح بخاری میں ہے، دو عالم کے مالک و مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ ‘‘بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ عطا کرتا ہے۔(بخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیراً یفقّہہ فی الدین، ۱ / ۴۲، الحدیث: ۷۱)
اس سے معلوم ہو اکہ جو چیز جب بھی جس کو اللہ تعالیٰ دیتا ہے وہ حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تقسیم سے ہی ملتی ہے اور اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کے دینے اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تقسیم فرمانے کو کسی قید کے بغیر بیان فرمایا گیا ہے کہ نہ زمانے کی قید ہے، نہ چیز اور نہ لینے والے کی قید ہے،اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دینا کسی زمانے، چیز اور لینے والے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے میں سے ہر زمانے میں ، جو چیز، جسے جو چاہیں عطا فرتے ہیں۔
نیز بکثرت اَحادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے دینِ اسلام کو دل سے ماننے والوں اور اس کی حمایت کرنےوالوں کو نفع پہنچایا ہے اور آئندہ بھی پہنچائیں گے ، جیسے حضرت ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جنت عطا فرمانا، حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تھوڑے سے آٹے اور گوشت میں لعابِ دہن ڈال کر سینکڑوں لوگوں کو کھلا دینا، غزوۂ بدر میں حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھ زخمی ہونے پر اسے صحیح کر دینا، غزوۂ اُحد کے موقع پر حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تیر لگنے سے آنکھ نکل جانے پر ان کی آنکھ درست کر دینا، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے لئے سورج کو واپس لوٹا کر گئے ہوئے دن کو عصر کردینا ، غزوۂ خیبر کے موقع پر آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ہونے والی آشوبِ چشم کی بیماری دور کردینا، ایک غزوے کے موقع پر 1500 صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر کے سیراب کر دینا، اسی طرح وصالِ ظاہری کے بعد حضرتِ بلال بن حارث مزنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزارِ اقدس پر حاضر ہو کر بارش کی دعا کرنے کی عرض پر بارش ہونے کی خوشخبری دینا، مزارِ اقدس پر حاضر ہو کر مغفرت طلب کرنے والے اَعرابی کو مغفرت ہو جانے کی بشارت دینا، قیامت کے انتہائی سخت لمحات میں اُمتوں کا حساب شروع کروا کر اَوَّلین و آخرین تمام انسانوں ، جنوں اور حیوانوں کی مدد کرنا، گنہگار امتیوں کی شفاعت کرنا، حوضِ کوثر پر پیاسے اُمتیوں کو سیراب کرنا، میزانِ عمل پر گنہگار اُمتیوں کے اَعمال کے وزن کو بڑھانا اورپل صراط پر کھڑے ہو کر اپنے امتیوں کی سلامتی کی دعائیں مانگنا، یہ سب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نفع پہنچانے کی واضح مثالیں ہیں۔( صراط الجنان ،جلد 4،صفحہ 331تا333،مکتبہ المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟