مجیب:مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر:Sar-7583
تاریخ اجراء:04رَبیعُ الآخر1443ھ/10 نومبر
2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ
شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ ایک جامِع شرائط پیر صاحب سے بیعت ہونے کے بعد کسی اور
سے مرید ہونا کیسا
ہے؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جامِع شرائط پیر صاحب کے ہاتھ پر بیعت
ہوجانے کے بعد کسی دوسرے
پیر صاحب سے بیعت نہیں ہونا چاہیے، البتہ حصولِ برکت کے
لیے بوقتِ ضرورت” طالِب“ ہو جانے
میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن
طالِب ہونے کے بعد،جو
بھی برکات حاصل ہوں، انہیں اپنے پیر صاحب کا ہی فیضان سمجھے۔
ایک پیر کے مُرید
ہوتے ہوئے کسی دوسرے پیر صاحب سے مرید
ہونے کے متعلق امام عبدالوہاب شعرانی
حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:973ھ/1565ء)اپنی کتاب”المِنَن الکبریٰ“
میں لکھتے ہیں:’’ كان سيدي علي بن وفاء
رضي اللہ تعالى عنه يقول: كما لم يكن للعالم إلهان، ولا للرجل قلبان، ولا للمرأة
زوجان، كذلك لا يكون للمريد شيخان۔‘‘ترجمہ:میرے
سردار حضرت علی بن وفا رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح
کائنات کے دو خدا نہیں،کسی شخص
کے دو دِل نہیں اور عورت کے بیک
وقت دو شوہر نہیں ہوسکتے، اسی
طرح ایک مُرید کے دو شیخ
(پِیر)بھی نہیں ہو سکتے۔(المنن الکبریٰ، الباب
الثامن، صفحہ395، مطبوعہ دارالتقویٰ،
دِمِشق)
امامِ اہلسنَّت ،
امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے
ہیں:’’جوشخص کسی شیخ جامع شرائط کے ہاتھ پربیعت ہو چکا ہو،تو دوسرے
کے ہاتھ پربیعت نہ چاہیے۔اکابرِ طریقت
فرماتے ہیں:’’لایفلح مرید
بین شیخین۔‘‘ترجمہ:جو مرید دو پیروں کے درمیان مشترک ہو، وہ کامیاب
نہیں ہوتا۔خصوصاً جبکہ
اُس سے کُشُوْد کَار(منازلِ
سُلوک کا دروازہ کھلنا ) بھی ہو چکا
ہو۔ حدیث میں ارشاد ہوا:’’من رزق فی شئی فلیلزمہ۔‘‘
ترجمہ:جسے اللہ تعالیٰ کسی شے
میں رزق دے، وہ اُسے لازم پکڑ لے۔(البتہ)دوسرے جامع
شرائط (پیر صاحب)سے طلبِ فیض
میں حرج نہیں، اگرچہ وہ
کسی سلسلہ صریحہ کا
ہو اور اُس سے جو فیض حاصل ہو ، اُسے بھی
اپنے شیخ کا ہی فیض جانے۔‘‘(فتاویٰ
رضویہ، جلد26، صفحہ579، مطبوعہ
رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
صدرالشریعہ
مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’مرید تو ایک کا ہو چکا،
ایک مرید کے دو پیر نہیں ہوتے، ہاں دوسرے سے طالب ہو سکتا
ہے اور اس کے بتانے پر ریاضت
ومجاہدہ کرے اور سلوک کی راہیں طے کرے اور جو کچھ فیوض حاصل ہوں، اُن کو
پیر ہی سے ملنا تصور کرے اور اُس کو واسطہ جانے۔‘‘(فتاویٰ
امجدیہ، جلد4،صفحہ352،مطبوعہ مکتبہ
رضویہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟