Kisi Wali Ke Naam Ki Nazar Manna Kaisa?

کسی ولی کے نام کی نذر ماننا کیسا ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7447

تاریخ اجراء:24محرم الحرام1443ھ/02ستمبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ بزرگانِ دین کے لیے نذر ماننا کیسا  ہے؟زید کہتا ہے  کہ نذر، اللہ پاک کے لیے خاص ہے  ، تو کیا  غیر اللہ کی نذر نہیں مان سکتے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نذر اور منّت دو طرح کی ہوتی ہے:(1) نذرِ شرعی اور(2) نذرِ  عُرفی ۔ نذرِ  شرعی یہ ہے کہ اللہ پاک  کے لیے کوئی ایسی عبادت اپنے ذِمہ لازم کر لینا   ، جو لازم نہیں تھی ، مثلاً   یہ کہنا کہ میرا یہ کام ہو جائے ،تو میں 100 نفل پڑھوں گا وغیرہ  ۔ نذرِ شرعی  کی کچھ شرائط ہوتی ہیں،اگر وہ پائی جائیں، تو  نذر کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے اور پورانہ کرنے سے آدمی گنہگار ہوتا ہے اور نذرِ عُرفی  کا معنیٰ ،نذرانہ  اور  ہدیہ  ہے،مثلاً: انبیائے کرام( علیہم السلام ) اور اولیائے عظام( رحمۃ اللہ علیہم ) کے لیےاس طرح  نذر ماننا  کہ اگر میرا فلاں کام ہوجائے ،تو میں فلاں بزرگ کے نام پر کھانا کھلاؤں گا ، یہ نذرِ عُرفی ہے  ، اسے پورا کرنا واجب  تو نہیں  ، البتہ بہترہے کہ اسے بھی پورا کیا جائے ۔

   اللہ پاک کے علاوہ کسی نبی یا ولی کی نذرِ عُرفی ماننا جائز ہے،کیونکہ اس میں بندے کا مقصود  یہ ہوتا ہے کہ  میں یہ  نیک کام  اللہ پاک   کی رضا  کے لیے کروں گا ،لیکن اس کا ثواب فلاں بزرگ کو ایصال کروں گا  اور اس  میں کوئی حرج  والی بات   نہیں ، اس کو نیا ز  بھی کہتے ہے ، البتہ نذرِ شرعی اللہ پاک  کے  ساتھ خاص ہے ، اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کے لیے  ماننا ممنوع  ہے۔

   نذر کی اقسام بیان کرتے ہوئے فقیہ ملّت حضرت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات :1422 ھ ) لکھتےہیں :”نذر کے دو معنیٰ ہیں،شرعی اور عُرفی۔نذرِ شرعی کے معنی ہیں غیر ضروری عبادت کو اپنے اوپر ضروری کر لینا  اور نذرِ عرفی کے معنیٰ ہیں نذرانہ ،ہدیہ یا پیشکش ۔ نذرِ شرعی خدائے تعالیٰ  کے سوا کسی کی ماننا ممنوع ہے اور نذرِ عرفی انبیائے کرام و اولیائےعظام علیہم الصلوٰۃ والسلام ورضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لیے جائز ہے ۔نذرِ شرعی کا حکم یہ ہے کہ اس کا ادا کرنا فرض ہے اور اگر صدقہ وغیرہ کی نذر ہو،تو اسے وہی لوگ کھا سکتے ہیں،جن کو زکوٰۃ لینا جائز ہے ۔قرآن کریم(کی اس آیت )﴿وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ میں اِس شرعی نذر کا ذکر  ہے اور نذرِ عرفی  کا حکم یہ ہےکہ اسے امیرو غریب سبھی لے سکتے ہیں اور کھا سکتے ہیں  ۔“ ( فتاوٰ ی فیض الرسول ،جلد 2 ، صفحہ 341 ،مطبوعہ شبیر برادرز ،لاھور )    

   نذرِ شرعی کو پورا کرنے کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :﴿وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ ترجمۂ کنزا لایمان :’’اور اپنی منتیں  پوری کریں  ۔‘‘(پارہ 17 ،سورۃ الحج  ،آیت 29 )    

   مذكوره بالا  آیتِ مبارکہ  کے تحت تفسیرِ قرطبی میں ہے:”﴿وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ﴾أمروا بوفاء النذر مطلقا إلا ما كان معصية، لقوله عليه السلام: ’’لا وفاء لنذر في معصية اللہ “ ترجمہ: آیتِ مبارکہ میں  گناہ کی نذر کے علاوہ مطلقا ً نذرکو پورا کرنے  کا حکم دیا گیا ہے ، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک کی نافرمانی   میں  کوئی بھی  نذر پوری نہیں کی جائے گی ۔ (تفسیرِ قرطبی ،جلد  12 ،صفحہ 34 ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ،بیروت )    

   حدیثِ پاک میں ہے:”عن عائشة رضي اللہ عنها، عن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال : من نذر ان یطیع اللہ  فليطعه، ومن نذر أن يعصيه فلا يعصه “ ترجمہ: حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : جو یہ منّت مانے کہ اﷲکی اطاعت کرےگا ،تو اس کی اطاعت کرے (یعنی منّت پوری کرے) اور جو اس کی نافرمانی کرنے کی منّت مانے، تو اس کی نافرمانی نہ کرے( یعنی اس منّت کو پورانہ کرے)۔(صحیح بخاری ، کتاب الایمان و النذور ،باب النذر فی الطاعۃ ، جلد 2  ،صفحہ 522 ،مطبوعہ لاھور )

   نذرِ عرفی  کے جائز   ہونے کے متعلق اللہ پاک کے اس فرمان : ﴿وَمَا اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہ کے تحت تفسیراتِ احمدیہ میں ہے:”ومن ھھنا علم ان البقرۃ المنذرۃ للاولیاء کما ھو الرسم فی زماننا حلال طیب “ ترجمہ:اور یہاں سے معلوم ہوا کہ جس  گائے کی نذر اولیائے کرام کے لیے مانی جائے،  وہ حلال و طیب ہے ،   جیسا کہ ہمارے زمانہ میں رائج ہے ۔‘‘ (تفسیراتِ احمدیہ ،سورۃ البقرۃ ،صفحہ 45 ،مطبوعہ کوئٹہ )    

   بحرالرائق میں ہے  :”أن قال يا اللہ إني نذرت لك إن شفيت مريضي، أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة، أو الفقراء الذين بباب الإمام الشافعي، أو الإمام الليث، أو أشتري حصیرا لمساجدهم، أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر للہ عز وجل وذكر الشيخ إنما هو محل لصرف النذر لمستحقيه الفاطنين برباطه، أو مسجده، أو جامعه فيجوز بهذا الاعتبار إذ مصرف النذر الفقراء وقد وجد المصرف “ ترجمہ :(اگر کسی نے)  اس طرح نذر مانی کہ  اے اللہ !میں تیرے لیے نذر مانتا ہوں  کہ اگر تو میرے اس مریض کو شفا عطا فرما دے  یا میرےگم شدہ عزیز کو لوٹا دے یا میری فلاں حاجت پوری ہوجائے ،تو میں سیّدہ نفیسہ  یا امامِ شافعی یا امام لیث  علھیم الرحمۃ کے مزار کے فقراء کو کھانا کھلاؤں گا یا ان بزرگوں کی مساجدکے لیے  چٹائیاں خرید کر دوں گا یا وہاں کے چراغ جلانے کے لیے تیل دوں گا یا وہاں کے خادمین کو دراہم دوں گا وغیرہ  ،تو اس میں فقراء کا نفع ہے  اور نذر اللہ پاک کے لیے ہے اور شیخ کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ یہ نذر کے صَرف ہونے کا  محل ہیں یعنی  ان کے جامعہ یا مسجد یا سرائے کے مستحق خادمین  کے اوپر وہ نذر خرچ ہوگی ،تو اس طرح منت ماننا جائز ہے  ،اس لیے کہ نذر کا مصرف فقراء ہیں اور وہ مصرف  پایا گیا ۔(بحرالرائق ، کتاب الصوم ،باب الاعتکاف ،جلد  2 ،صفحہ 521 ،مطبوعہ کوئٹہ )    

   عارف  باللہ امام عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات : 973 ھ) حضرت ابو المواہب شاذلی  کے احوال میں  لکھتے ہیں :”کان رضی اللہ عنہ یقول رأیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  فقال اذا کان لک حاجۃ واردت قضائھا فانذر للنفیسۃ الطاھرۃ و لوفلسا  فان حاجتک تقضٰی  ترجمہ : حضرت شاذلی علیہ الرحمۃ فرماتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو دیکھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا  جب تجھے کوئی حاجت درپیش ہو اور تو چاہتاہوکہ وہ پوری ہو جائے  ،  تو سیّدہ نفیسہ طاہرہ کی نذر مان لے، اگرچہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو ، توتیری حاجت  ضرور پوری ہو جائے گی۔(الطبقات الکبریٰ   ،ابو المواھب شاذلی ،جلد 2  ،صفحہ 148  ،مطبوعہ مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ )    

   علامہ سیّدی عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات: 1143 ھ) لکھتے ہیں:”والنذر لھم بتعلیق ذٰلک علٰی حصول شفاء او قدوم غائب فانہ مجاز عن الصدقۃ علی الخادمین بقبورھم “ ترجمہ:اولیاء اللہ کے لیے جو نذر مانی جاتی ہے اور اسے مریض کی شفا حاصل ہونے یا غائب کے آنے پر معلّق کیا جاتا ہے  ، وہ نذر مجاز ہے  (یعنی )اِس سے  اولیاء اللہ کے مزارات  پر خادمین کے لیے صدقہ کرنا مراد ہوتا ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ      ،الخلق الثامن والاربعون ،جلد 2 ،صفحہ 151 ، مکتبہ نوریہ رضویہ ، فیصل آباد )    

   حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات :1239 ھ) فرماتے ہیں:”حضرت امیر وذریۃ طاھرہ اور اتمام امت برمثال پیراں و مرشداں می پرستند وامور تکوینیہ را بایشاں وابستہ می دانند وفاتحہ و در ود صدقات و نذر بنام ایشاں رائج و معمول گردیدہ چنانچہ باجمیع اولیاء ﷲ ہمیں معاملہ است فاتحہ ودرود ونذر وعرس و مجلس “ترجمہ: حضرت امیر ( مولیٰ علی کرم اﷲ وجہہ الکریم ) اور ان کی اولاد پاک کو تمام اُمت پیروں اور مُرشِد وں کی طرح مانتی ہے اور تکوینی اُمور  فاتحہ، درود ، صدقات اور نذر ونیاز ان کے نام سے رائج ہیں اور معمول بنا ہوا ہے، چنانچہ تمام اولیائےکرام سے یہی معاملہ ہے کہ ان کے نام پر نذر و نیاز، فاتحہ، درود، عرس اور مجالس منعقد کی جاتی ہیں۔ (تحفہ اثنا عشریہ   ،باب ھفتم درامامت    ، صفحہ 214 ،مطبوعہ سھیل اکیڈمی ، لاھور    )    

   شیخ الاسلام والمسلمین اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 1340  ھ) لکھتے ہیں:”غیر خداکے لیے  نذرِ فقہی کی ممانعت ہے،اولیائے کرام کےلیے ان کی حیاتِ  ظاہری خواہ باطنی میں جو نذر کہی جاتی ہیں،یہ نذرِ فقہی نہیں، عام محاورہ ہے کہ اکابر کے حضور جو ہدیہ کریں اسے نذر کہتے ہیں، بادشاہ نے دربار کیا ، اسے نذر یں گزریں۔ ‘‘ (فتاویٰ رضویہ ،جلد 13 ،صفحہ  598 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم