مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-576
تاریخ اجراء:27ربيع الآخر1446ھ/31 اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ گیارہویں شریف میں جو ختمِ قادریہ کے پرچے پڑھے جاتے ہیں،تو کیا ان پرچوں کا پڑھنا جائز ہے اور اس میں فارسی اشعار بھی ہوتے ہیں، تو ان کے پڑھنے کے متعلق حکم کیا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ختم قادریہ کے پرچے بشمول فارسی اشعار کے پڑھنا شرعاً بالکل جائز ہے،اس میں کوئی ممانعت والی بات نہیں ہے،کیونکہ اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیائے عظام کے وسیلہ سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں مشکلات حل کرنے کی التجا کی جاتی ہے،اور بلا شک و شبہ اللہ عزوجل کے نیک بندوں کا ان کی حیاتِ ظاہری میں اوراُن کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد،اللہ عزوجل کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا، شرعاً جائز و مستحسن اور قرآن و حدیث سے ثابت عمل ہے، مقبولان بارگاہ کا وسیلہ مشکلات کے حل، مصائب و آلام سے چھٹکارے،دعاؤں کی قبولیت اور دینی و دُنیوی بھلائیوں کے حُصول کا آسان ذریعہ ہے۔مزید اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم،خلفائے راشدین علیہم الرضوان اور سیدنا غوث اعظم عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو’’یا‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور اِنہیں اللہ عزوجل کی عطا سے مدد کرنے پر قادر سمجھ کر اِن سے مدد مانگی جاتی ہے اور یہ بھی شرعاً جائز ہے،جس کا ثبوت خود قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
اللہ عزوجل کی طرف وسیلہ تلاش کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ﴾ترجمہ کنز العرفان:’’ اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔‘‘(القرآن، پارہ6، سورۃ المائدہ:35)
تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر میں ہے:’’یاد رکھئے! رب تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے نیک بندوں کو وسیلہ بنانا، ان کے وسیلے سے دعائیں کرنا، ان کے تَوَسُّل سے بارگاہِ ربِّ قدیر عَزَّوَجَلَّ میں اپنی جائز حاجات کی تکمیل کے لیے اِلتجائیں کرنا نہ صرف جائز،بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا طریقہ رہا ہے۔‘‘(تفسیر صراط الجنان،جلد2،صفحہ 476،475،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
یہودی اللہ عزوجل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے آپ کے وسیلہ سے دعا مانگاکرتے اور کفار پر فتح حاصل کرتے تھے، چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّذِیْنَ كَفَرُوْاۚ﴾ ترجمۂ کنز العرفان:’’اور اس سے پہلے یہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں کے خلاف فتح مانگتے تھے۔‘‘(القرآن، پارہ1،سورۃ البقرۃ:89)
مستدرک للحاکم کی حدیث پاک ہے:’’عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنه، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: لما اقترف آدم الخطيئة قال:يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لی، فقال اللہ:يا آدم، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه؟ قال: يا رب، لأنك لما خلقتنی بيدك ونفخت فی من روحك رفعت رأسی فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا اللہ محمد رسول اللہ فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك، فقال اللہ: صدقت يا آدم، إنه لأحب الخلق إلی ادعنی بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك‘‘ترجمہ:حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی، تو اللہ تعالیٰ سے عرض کی: اے میرے رب! میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگتا ہوں، تو مجھے معاف کر دے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیسے پہچانا؟حالانکہ ان کو تو میں نے ابھی پیدا ہی نہیں کیا،آدم علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب ! تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے تخلیق فرمایا اور میرے اندر اپنی روح پھونکی،میں نے اپنا سر اٹھایا، تو میں نے عرش کے پائے پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ لکھا ہوا دیکھا، تو میں نے جان لیا کہ تو نے جس کا نام اپنے نام کے ساتھ ملا کر لکھا ہوا ہے، وہ تمام مخلوقات میں تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا،واقعی وہ مجھے تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ محبوب ہے،تو نے اس کے واسطے سے مجھ سے دعا کی،تو میں نے تجھے معاف کر دیا ہے اور اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،جلد2،صفحہ672،رقم الحدیث4228،دار الكتب العلميہ، بيروت)
غیر اللہ کو مدد کے لیے پکارنے اور مدد مانگنے سے متعلق قرآن مجید میں ہے:﴿قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ﴾ ترجمہ کنز العرفان:’’عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے فرمایا تھا: کون ہیں جو اللہ کی طرف ہو کر میرے مدد گار ہیں؟حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے (دین کے) مددگار ہیں۔“(القرآن،پارہ3،سورہ آل عمران:52)
اللہ عزوجل کی عطا سے غیر اللہ کے مددگار ہونے سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:﴿فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْر﴾ترجمہ کنز العرفان:’’بیشک اللہ خودان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مددگار ہیں۔“(القرآن،پارہ28، سورۃ التحریم:4)
خود نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے نماز پڑھ کر ایک دعا کرنے کی تعلیم فرمائی ، جس میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ندا کرنے اور آپ سے مدد طلب کرنے کی صراحت موجود ہے،چنانچہ سنن ابن ماجہ کی حدیث مبارک ہے:”عن عثمان بن حنيف، أن رجلا ضرير البصر أتى النبی صلى اللہ عليه وسلم فقال: ادع الله لی أن يعافينی فقال: إن شئت أخرت لك وهو خير، وإن شئت دعوت»فقال: ادعه، فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه، ويصلی ركعتين، ويدعو بهذا الدعاء:«اللهم إنی أسألك، وأتوجه إليك بمحمد نبی الرحمة، يا محمد إنی قد توجهت بك إلى ربی فی حاجتی هذه لتقضى، اللهم فشفعه فی“ ترجمہ:حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ میری تکلیف کو دور کردے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو چاہے تو صبر کر،اور وہ بہتر ہے اوراگر تو چاہے تو میں دعا کروں،اس نے عرض کیا: آپ دعا فرمائیں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے کا حکم دیا اور یہ کہ وہ دو رکعت نماز پڑھے اور ان الفاظ سے دعا کرے’’ اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرے نبی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نبی الرحمۃ کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں۔ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف اپنی اس حاجت کے بارے میں متوجہ ہوتا ہوں تا کہ آپ یہ حاجت میرے لیے پوری فرما دیں۔ اے اللہ ! آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔(سنن ابن ماجہ، جلد1،صفحہ441،رقم الحدیث:1385، دار إحياء الكتب العربيہ)
اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”معلوم ہوا کہ اﷲ کے محبوبین بحکم پروردگار دافع بلاء اور صاحب عطا ہیں اور حاجتوں میں انہیں پکارنا،جائز ہے، کیونکہ یہ دعا قیامت تک کے مسلمان پڑھ سکتے ہیں اور اس میں حضور علیہ السلام کو پکارا بھی گیا ہے اور حضور علیہ السلام کا وسیلہ بھی لیا گیا ہے۔(مرآۃ المناجیح،جلد4، صفحہ79، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃالرحمٰن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:”سیدی جمال بن عبداﷲ بن عمر مکی اپنے فتاوٰی میں فرماتے ہیں:’’سئلت ممن یقول فی حال الشدائد یارسول ﷲ أویا علی أویا شیخ عبدالقادر مثلاً ھل ھو جائز شرعاً أم لا؟ اجبت نعم الاستغاثۃ بالاولیاء ونداؤھم والتوسل بھم امر مشروع وشیئ مرغوب لاینکرہ الامکابر أومعاند وقد حرم برکۃ الاولیاء الکرام‘‘یعنی مجھ سے سوال ہوا اس شخص کے بارے میں جو مصیبت کے وقت میں کہتا ہو یارسول اﷲیا علی یا شیخ عبدالقادر، مثلاً: آیا یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ میں نے جواب دیا: ہاں اولیاء سے مدد مانگنی اور انہیں پکارنا اور ان کے ساتھ توسّل کرنا شرع میں جائز اور پسندیدہ چیز ہے جس کا انکار نہ کرے گا مگر ہٹ دھرم یا صاحبِ عناد، اور بےشک وہ اولیائےکرام کی برکت سے محروم ہے۔
حضور پُر نور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:”من استغاث بی فی کربۃ کشفت عنہ و من نادٰی باسمی فی شدۃ فرجت عنہ ومن توسل بی الی اللہ عزوجل فی حاجۃ قضیت لہ“(ترجمہ:) جو کسی تکلیف میں مجھ سے فریاد کرے، وہ تکلیف دفع ہواور جو کسی سختی میں میرا نام لے کر ندا کرے، وہ سختی دور ہو اور جو کسی حاجت میں اللہ تعالیٰ کی طرف مجھ سے توسل کرے، وہ حاجت پوری ہو۔“(فتاویٰ رضویہ،جلد29،صفحہ556 ،554،رضا فاؤنڈیشن، لاهور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟