Khatam Ke Waqt Khana Samne Rakhna Aur Ye Khana Khud Khana

 

ختم دلاتے وقت کھانا سامنے رکھنا اوریہ کھانا خود کھانا

مجیب:مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3012

تاریخ اجراء: 22صفر المظفر1446 ھ/28اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

       جمعرات کو جو ختم دالوتے ہیں،تو کیا اس میں کھانا رکھنا ضروری ہے اور کیا وہ خود بھی کھا سکتے ہیں یا کسی کو دینا ہی ضروری ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جمعرات اور اس کے علاوہ بھی ختم شریف پڑھنا،بلاشبہ جائز اور باعثِ ثواب ہے،کہ اس کی  حیثیت ایصالِ ثواب کی ہے اور ایصالِ ثواب ،یعنی کلمات ِخیر اور  بدنی و مالی عبادات کا ثواب کسی مسلمان کو پہنچانے کی اصل قرآنِ پاک کی کئی آیات،احادیثِ طیبہ اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے افعال سے ثابت ہے۔پھر ختم شریف کے لئے کھانا،پانی اور پھل وغیرہ سامنے ہونا  ضروری نہیں ،اس کے بغیر بھی ختم پڑھ سکتے ہیں،البتہ اس وقت کھانا سامنے  رکھنا منع بھی نہیں،بلکہ خود نبیِ کریم صلی اللہ تعالی  علیہ و آلہ وسلم سے کھانا سامنے رکھ کر مبارک کلمات پڑھنا ثابت ہے۔اور یہ کھانا تقسیم کرنا ہی ضروری نہیں،بلکہ خود بھی کھا  سکتے ہیں۔

   رسول اللہ صلی اللہ تعالی  علیہ وآلہ و سلم حضرتِ ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا:’’هلمي يا ام سليم!ما عندك؟ فاتت بذلك الخبز،فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم،ففتّ وعصرت ام سليم عكة فادمته،ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه ما شاء الله ان يقول،ثم قال:ائذن لعشرة، فاذن لهم،فاكلوا حتى شبعوا،ثم خرجوا،ثم قال:ائذن لعشرة،فاذن لهم،فاكلوا حتى شبعوا،ثم خرجوا،ثم قال:ائذن لعشرة،فاذن لهم، فاكلوا حتى شبعوا،ثم خرجوا،ثم قال: ائذن لعشرة فاكل القوم كلهم وشبعوا والقوم سبعون او ثمانون رجلا‘‘ترجمہ:اے ام سلیم!جو کچھ تمہارے پاس ہے،اسے  لاؤ،پس وہ روٹیاں لائیں، تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  حکم دیا،وہ ٹکڑے بنا دی گئیں۔ ام سلیم نے گھی کا مشکیزہ نچوڑا اور اس کا سالن بنایا،پھر اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ و  سلم نے وہ پڑھا جس کا پڑھنا اﷲ نے چاہا۔پھر فرمایا:دس آدمیوں کو بلاؤ،انہیں بلایا گیا،انہوں نے کھایا حتی کہ سیر ہو کر چلے گئے، پھر فرمایا: اور دس کو بلاؤ،انہیں بلایا گیا،انہوں نے کھایا  حتی کہ وہ سیر ہو کر چلے گئے،پھر فرمایا:مزید دس کو بلاؤ،انہیں بلایا گیا،وہ آئے اور سیر ہو کر چلے گئے،پھر فرمایا:مزید دس کو بلاؤ، پس سب افراد نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور ان کی تعداد ستر یا اسی تھی۔ (صحیح بخاری،ج4،ص193،رقم الحدیث3578 ،دار طوق النجاۃ)

   اس حدیثِ پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:’’یہ پتہ نہ چلا کہ حضور انور نے اس پر کیا پڑھا۔بہرحال دعائے برکت کی، کچھ اسماء الہیہ پڑھے،اس سے ثابت ہوا کہ کھانا سامنے رکھ کر کچھ پڑھنا قرآن مجید وغیرہ سنت ہے، ہم فاتحہ میں یہ ہی کرتے ہیں کہ کھانا سامنے رکھ کر آیاتِ قرآنیہ دعائیں،درود شریف وغیرہ پڑھتے ہیں،ایصال ثواب کرتے ہیں،یہ ممنوع یا شرک نہیں۔‘‘(مرآۃ  المناجیح،ج8،ص218 ،نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ فاتحہ بہیئت مروجہ کہ کھانا سامنے رکھ کر درود و قرآن پڑھ کر ثواب اس کا بنام میّت کرتے ہیں اوروہ کھانا محتاج کو دے دیتے ہیں، جائز ہے یا نہیں؟ زید کہتا ہے کہ۔۔۔کھانا سامنے رکھ کر، ناجائز وناروا ہے۔آیا قول اس کا صحیح ہے یا غلط؟

   تو اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ نے  ارشاد فرمایا:”فاتحہ بہیئتِ مروّجہ جس طرح سوال میں مذکور ، بلاریب جائز ومستحسن ہے،اہلسنت کے نزدیک اموات کو ثواب پہنچانا ثابت ہے اور اس میں حدیثیں صحیح اور روایتیں فقہی معتبر بہ کثرت وارد۔۔ ۔اقول:بات یہ ہے کہ فاتحہ ایصالِ ثواب کا نام ہے۔۔۔فاتحہ میں دو عمل نیک ہوتے ہیں:قراءتِ قرآن و اطعامِ طعام۔۔۔ جو اسے ناجائز وناروا کہے، ثبوت اس کا دلیل شرعی سے دے،ورنہ اپنی طرف سے بحکم خدا ورسول کسی چیز کو ناروا کہہ دینا خدا ورسول پر افتراء کرنا ہے۔ ہاں! اگر کسی شخص کایہ اعتقاد ہے کہ جب تک کھانا سامنے نہ کیاجائے گا، ثواب نہ پہنچے گا، تویہ گمان اس کا محض غلط ہے، لیکن نفسِ فاتحہ میں اس اعتقاد سے بھی کچھ حرف نہیں آتا۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج9،ص564،565،566،567،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم