Karamat e Wali Ka Saboot Aur Iske Munkir Ka Hukum

کرامتِ ولی کا ثبوت اور اس کے منکر کا حکم

مجیب: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر: 3217-Pin

تاریخ اجراء: 18محرم الحرام 1435ھ/23نومبر 2013ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کراماتِ اولیاء کا کیا ثبوت ہے اور جو شخص کرامات اولیاء کا انکار کرے ، اس کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کرامت ولی کی طرف سے بغیر دعوی نبوت کیے خلاف عادت کام کے ظاہر ہونے کو کہتے ہیں ۔ کرامات اولیاء حق ہیں ، جس پر قرآن وسنت اور اسلاف کی کتب سے کثیر دلائل موجود ہیں ۔ ضروریات مذہب اہلسنت میں سے ہے ، جو کرامات اولیاء کا انکار کرے ، وہ بدمذہب وگمراہ ہے ۔ کچھ دلائل مندرجہ ذیل ہیں۔

   اللہ تعالیٰ سلیمان علیہ السلام کے قول کی حکایت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ﴿قَالَ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَیُّكُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ، قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ ، وَ اِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ ، قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَ ﴾ترجمہ کنزالایمان :سلیمان (علیہ السلام )نے فرمایا :اے درباریو !تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہوں  ؟ ایک بڑا خبیث جن بولا :میں وہ تخت حضور میں حاضر کر دوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بے شک اس پر قوت والا ، امانتدار ہوں  ۔ اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے حضور میں حاضر کر دوں گا ایک پل مارنے سے پہلے۔(پارہ 19 ، سورۃ النمل، آیت 38،39،40)

   ان آیات کے تحت مفسر شہیر مفتی احمدیار خان نعیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”اس سے معلوم ہوا کہ ولایت برحق ہے اور اولیاء اللہ کی کرامات بھی برحق ہیں۔‘‘(نورالعرفان،ص816،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ )

   مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَ ، وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا ، قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَا ، قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ﴾ ترجمہ:جب زکریا اس(مریم)کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے ، اس کے پاس نیا رزق پاتے ۔ کہا : اے  مریم !یہ تیرے پاس کہاں سے آیا ؟ بولیں : وہ اللہ کے پاس سے ہے۔(پارہ 3 ، سورہ آل عمران،آیت37)

   اس آیت کے تحت خزائن العرفان میں ہے:’’یہ آیت کرامات اولیاء کے ثبوت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں پر خوارق عادت ظاہرفرماتا ہے ۔‘‘(تفسیر خزائن العرفان،ص98،مطبوعہ ضیاء القرآن)

   مفسر شہیر مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ باب الکرامات کے تحت فرماتے ہیں:’’کرامات جمع ہے کرامت کی بمعنی تعظیم واحترام ۔ اصطلاحِ شریعت میں کرامت وہ عجیب وغریب چیز ہے ، جو ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو ۔ حق یہ ہے کہ جو چیز نبی کا معجزہ بن سکتی ہے ، وہ ولی کی کرامت بھی بن سکتی ہے ، سوا اس معجزہ کے جو دلیلِ نبوت ہو ۔ جیسے وحی اور آیات قرآنیہ ۔ معتزلہ کرامات کا انکار کرتے ہیں ، اہل سنت کے نزدیک کرامت حق ہے۔ آصف بن برخیا کا پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس کو یمن سے شام میں لے آنا ،حضرت مریم کا بغیر خاوند حاملہ ہونا اورغیبی رزق کھانا،اصحاب کہف کا بے کھانا پانی صدہا سال تک زندہ رہنا کراماتِ اولیاء ہیں ، جو قرآن مجید سے ثابت ہیں ۔ حضور غوث پاک کی کرامات شمار سے زیادہ ہیں۔ ‘‘(مرأۃ المناجیح،جلد8،ص268،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ)

   ملا علی قاری رحمہ اللہ باب الکرامات کے تحت فرماتے ہیں:’’الکرامات جمع کرامۃ وھی اسم من الاکرام والتکریم وھی فعل خارق للعادۃ غیر مقرون بالتحدی وقداعترف بھا اھل السنۃ وانکرھا المعتزلۃ واحتج اھل السنۃ بحدوث الحبل لمریم من غیر فحل وحصول الرزق عندھا من غیر سبب ظاھر وایضاً ففی قصۃ اصحاب الکھف فی الغار ثلٰثمائۃ سنۃ وازید فی النوم احیاء من غیر اٰفۃدلیل ظاھر وکذا فی احضار اٰصف بن برخیا عرش بلقیس قبل ارتداد الطرف حجۃ واضحۃ ‘‘مفہوم اوپر مذکور ہوا۔ (مرقاۃ المفاتیح،جلد11،ص88،مطبوعہ کوئٹہ )

   شرح المقاصد میں ہے : ’’الولی ھو العارف باللہ تعالی الصارف ھمتہ عما سواہ والکرامۃ ظھور امر خارق للعادۃ من قبلہ بلا دعوی النبوۃ وھی جائزۃ ولو بقصدالولی ومن جنس المعجزات لشمول قدرۃ اللہ تعالی وواقعۃ کقصۃ مریم واٰصف واصحاب الکھف وما تواتر جنسہ من الصحابۃ والتابعین وکثیرمن الصالحین وخالفت المعتزلۃ‘‘ترجمہ:ولی وہ ہوتا ہے ، جو اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہو اور ماسوی اللہ سے اپنی ہمت اور توجہ کوپھیر دے اور ولی کی طرف سے بغیر دعوی نبوت کیے خلاف عادت کام کے ظاہر ہونے کو کرامت کہتے ہیں اور یہ جائز ہے اگرچہ ولی کے قصد سے ہو اور قدرت الٰہیہ کے شامل ہونے کے سبب یہ معجزات کی جنس سے ہے اور کرامات کا ظہور واقع اور ثابت ہے ۔ جیسے حضرت مریم،حضرت آصف بن برخیا اور اصحاب کہف رضی اللہ عنہم کے قصے اور کرامات کی جنس کے واقعات صحابہ کرام ،تابعین عظام اور کثیر صالحین سے تواتر سے ثابت ہیں اور معتزلہ نے کرامات کا انکار کیا ہے۔(شرح المقاصد،جلد5،ص72،مطبوعہ منشورات الشریف الرضی)

   علامہ نسفی فرماتے ہیں : ’’کرامات الاولیاء حق فتظھر الکرامۃ علیٰ طریق نقض العادۃ للولی من قطع مسافۃ البعیدۃ فی المدۃ القلیلۃ‘‘ ترجمہ: اولیاء اللہ کی کرامات حق ہیں ،پس ولی کی کرامت خلاف عادت سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ مسافتِ بعیدہ کو مدتِ قلیلہ میں طے کر لے۔

   اس کی شرح میں علامہ تفتازانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ’’کأتیان صاحب سلیمان علیہ السلام وھو اٰصف بن برخیا علی الاشھر بعرش بلقیس قبل ارتداد الطرف مع بعد المسافۃ‘‘ ترجمہ: مثلاً صاحب ِسلیمان آصف بن برخیا کا تختِ بلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے مسافتِ بعیدہ سے لے آنا ۔(شرح العقائد النسفیہ مع متن العقائد، ص 146، مطبوعہ ملتان)

   شرح فقہ اکبر میں ہے:’’الکرامات للاولیاء حق ای ثابت بالکتاب والسنۃ ولا عبرۃ بمخالفۃ المعتزلۃ واھل البدعۃ فی انکارالکرامۃ‘‘ ترجمہ:کراماتِ اولیاء حق ہیں یعنی قرآن وسنت سے ثابت ہیں اور معتزلہ اور بدعتیوں کا کرامات اولیاء کا انکار کرنامعتبر نہیں۔(شرح فقہ اکبر،ص130،مطبوعہ ملتان)

   شرح مقاصد میں کرامات اولیاء کے منکریں کے بارے میں ہے : ’’وانکارھا لیس بعجیب من اھل البدع والاھواء اذلم یشاھدوا ذٰلک من انفسھم قط ولم یسمعوا بہ من رؤسائھم الذین یزعمون انھم علی شیء مع اجتھادھم فی امورالعبادات واجتناب السیئات فوقعوا فی اولیاء اللہ تعالی اصحاب الکرامات یمزقون ادیمھم ویمضغون لحومھم لایسمونھم الا باسم الجھلۃ المتصوفۃ ولا یعدونھم الا فی عداد احاد المبتدعۃ قاعدین تحت المثل السائر اوسعتھم سبا واودوا بالابل ولم یعرفوا ان  مبنی ھٰذا الامر علی صفاء العقیدۃ ونقاء السریرۃ واقتفاء الطریقۃ واصطفاء الحقیقۃ ۔ ‘‘ ترجمہ : بدعتیوں اور گمراہوں کی طرف سے کرامات کا انکار کوئی عجیب بات نہیں ، کیونکہ نہ تو ان کی اپنی جانوں سے ایسی باتیں صادر ہوئیں اور نہ ہی وہ اپنے قائدین سے ایسی باتیں سن سکے ہیں ، حالانکہ وہ عبادات اور مجاہدہ میں مصروف تھے اور گناہوں سے بچتے تھے، (جب نہ وہ خود صاحب کرامت تھے اور نہ ہی ان کے عظماء کو یہ دولت ملی )تو ان بدعتیوں اور گمراہوں نے اولیائے امت پر اعتراضات شروع کردیے ، ان کے گوشت کو نوچنا شروع کردیا اور ان کی کھال کھینچنی چاہی ، ان کو جاہل صوفیوں کا نام دیا اور ان کو بدعتیوں میں شمار کیا ، جن پر وہ گالیوں کے ساتھ زبانیں دراز کرتے ہیں اور انہیں اونٹوں کی طرح بوجھ اٹھانے والا قرار دیا اور یہ نہ جانا کہ ولایت کا مدار عقیدہ کی طہارت،باطن کی صفائی،طریقت کی پیروی اور حقیقت کے انتخاب پرمبنی ہے۔(شرح المقاصد،جلد5،ص75،مطبوعہ منشورات الشریف الرضی)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’کرامات اولیاء کا انکار گمراہی ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد14،ص324،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” کرامت اولیاحق ہے ، اس کا منکر گمراہ ہے ۔ مردہ زندہ کرنا ،مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا ، مشرق سے مغرب تک ساری زمین ایک قدم میں طے کرجانا،غرض تمام خوارقِ عادات اولیاء سے ممکن ہیں ، سوا اس معجزہ کے جس کی بابت دوسروں کے لیے ممانعت ثابت ہوچکی ہے ۔ جیسے قرآن مجید کے مثل کوئی سورت لے آنا یا دنیا میں بیداری میں اللہ عزوجل کے دیدار یا کلام حقیقی سے مشرف ہونا ،اس کا جو اپنے یا کسی ولی کے لیے دعویٰ کرے ، کافر ہے۔(بهارشریعت،جلد1،ص271،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم